Wednesday 3 July 2024

جب آفتاب روز شہادت عیاں ہوا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جب آفتابِ روزِ شہادت عیاں ہوا

فارغ نمازِ صبح سے پیر و جواں ہوا

اک شورِ طبلِ جنگ ادھر ناگہاں ہوا

ہر ناصرِ حسینؑ ادھر شادماں ہوا

پیشِ نظر تحفظِ دینِ رسولﷺ ہے

اس راہ میں ہر ایک مصیبت قبول ہے


للکار کے جرّی نے پکارا یہ ایک بار

اے بزدلو! میں آتا ہوں دریا سے ہشیار

فوجِ یزید میں ہوا یہ سن کے انتشار

کھینچی جو باگ برق کی صورت تھا راہوار

وہ چال تھی کہ فوج کے نقشے بدل گئے

ٹاپوں سے جانے کتنے پیادے کچل گئے


ہر سمت سے وہ تیروں کی بارش کہ الاماں

اک تیر آ کے چھید گیا مشک ناگہاں

سر پر لگا جو گُرز ہوئے چُور استخواں

پانی کے ساتھ ساتھ لہُو بھی ہوا رواں

گردُوں حشم ٹھہر نہ سکا عرشِ زین پر

تیورا کے آخر آ گیا غازی زمین پر


خاموش ہو گئے جو علمدارِ کربلا

اک آہ سرد بھر کے یہ شبیرؑ نے کہا

الله کیا کروں مِرے بھائی کو کیا ہوا

لو دیکھتے ہی دیکھتے منکا بھی ڈھل گیا

ڈھارس تھی جس کے دم سے وہ جی سے گزر گیا

یا رب! دُہائی ہے مِرا عباسؑ مر گیا


اے کربلا کے قافلہ سالار السلام

اہلِ حرم کے مونس و غمخوار السلام

آئنیہ دارِ جعفرِ طیارؑ السلام

اے ورثہ دارِ حیدرؑ کرار السلام

ہے بے مثال تیری وفا دو جہان میں

کیا کوئی کہہ سکے گا بھلا تیری شان میں


زاہد فتحپوری

کرار حسین

No comments:

Post a Comment