محفلِ یار میں جو آ نکلا
وہ مِرا درد آشنا نکلا
مل گیا کیا کہیں سراغِ اثر
نالہ بے تاب ہو کے کیا نکلا
وصل سے بھی نہ کچھ ہوئی تسکیں
مرضِ عشق لا دوا نکلا
جس کو آزاد جانتے تھے وہ دل
بستۂ گیسوئے دو تا نکلا
ہو گئی تھوڑی قلب کو تسکیں
نالہ ہم شکل مدعا نکلا
وصل سے عشق ہو گیا دُونا
کیا مِرے دل کا حوصلا نکلا
باوفا جس کو ہم کبھی سمجھے
وہ بڑا بانئ جفا نکلا
تم تو دلبر ہو کیا گِلہ تم سے
جب مِرا دل ہے بے وفا نکلا
آپ فرمائیے کہ ہیں کس کے
دل ہمارا تو آپ کا نکلا
نور پھیلا ہے چاندنی کے عوض
سیر کو کون مہ لقا نکلا؟
عاشقِ سرو قدِ گل رویاں
کون شمشاد کے سوا نکلا
شمشاد لکھنوی
محمد عبدالاحد
No comments:
Post a Comment