زخم ہائے دل کو ان کی خاک پا یاد آ گئی
عشق کے آزار کی آخر دوا یاد آ گئی
وقت رخصت کیا بتائیں جان پر کیوں کر بنی
اس نے منہ موڑا ہی تھا ہم کو قضا یاد آ گئی
آج جب برہم ہوا مجھ سے زمانے کا مزاج
برہمئ حسن کی دل کش ادا یاد آ گئی
ان کا کیا شکوہ تغیر ہے یہاں ہر چیز کو
ناز تھا جن پر کبھی ان کی وفا یاد آ گئی
دل ہی دل میں رہ گیا میرا دعا کا اشتیاق
بے اثر نکلی تھی پہلے وہ دعا یاد آ گئی
میں بھلانا چاہتا تھا ذہن سے مجبور تھا
ہجر میں اک ایک کر کے ہر بلا یاد آ گئی
سوتے سوتے ہنس رہے تھے خواب میں آیا تھا کون
بیٹھے بیٹھے رو دئیے کس کی شفا یاد آ گئی
شفا دہلوی
پریم لال
No comments:
Post a Comment