Wednesday, 28 August 2024

زخم ہائے دل کو ان کی خاک پا یاد آ گئی

 زخم ہائے دل کو ان کی خاک پا یاد آ گئی

عشق کے آزار کی آخر دوا یاد آ گئی

وقت رخصت کیا بتائیں جان پر کیوں کر بنی

اس نے منہ موڑا ہی تھا ہم کو قضا یاد آ گئی

آج جب برہم ہوا مجھ سے زمانے کا مزاج

برہمئ حسن کی دل کش ادا یاد آ گئی

ان کا کیا شکوہ تغیر ہے یہاں ہر چیز کو

ناز تھا جن پر کبھی ان کی وفا یاد آ گئی

دل ہی دل میں رہ گیا میرا دعا کا اشتیاق

بے اثر نکلی تھی پہلے وہ دعا یاد آ گئی

میں بھلانا چاہتا تھا ذہن سے مجبور تھا

ہجر میں اک ایک کر کے ہر بلا یاد آ گئی

سوتے سوتے ہنس رہے تھے خواب میں آیا تھا کون

بیٹھے بیٹھے رو دئیے کس کی شفا یاد آ گئی


شفا دہلوی

پریم لال

No comments:

Post a Comment