Thursday 29 August 2024

پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

 پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

ہونٹوں پر آتے ہر قطرہ سوکھ رہا ہے

اندھے ہو کر بادل بھاگے پھرتے ہیں

گاتے گاتے ایک پرندہ آگ ہوا ہے

پھول اور پھل تو تازہ کونپل پر آتے ہیں

پیلا پتہ اس وحشت میں ٹوٹ رہا ہے

گردش گردش چلنے سے ہی کٹ پائے گا

چاروں جانب ایک سفر کا جال بچھا ہے

اسی پیڑ کے نیچے دفن بھی ہونا ہو گا

جس کی جڑ پر میں نے اپنا نام لکھا ہے


علی اکبر عباس

No comments:

Post a Comment