Saturday 24 August 2024

ربط قائم ہی رہے زخم تو بھر جائے گا

 ربط قائم ہی رہے زخم تو بھر جائے گا

"وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گُزر جائے گا"

غُنچۂ شوق لگائے کبھی اُمیدِ بہار

خطرِ طالعِ ناساز سے مر جائے گا

دل بھی پاگل ہے سمجھتا ہے جسے راحتِ جاں

جب بھی آئے گا مِری آنکھ کو بھر جائے گا

درد کا توڑ تِرا جام تو ہے پر ساقی

حال پھر ہو گا وہی جب بھی اثر  جائے گا

لا فنا عشق ہی تا حشر جُدا رنگ میں ہے

میں بھی مر جاؤں گا اک دن تُو بھی مر جائے گا

پیار ان کا بھی کوئی جھاگ کی طرح ہے بدر

کیا خبر جوش یہ کس وقت اُتر جائے


بدر۔م۔ژرف

بدر منیر ژرف

No comments:

Post a Comment