تخت و تاج بکتے ہیں اقتدار بِکتا ہے
مال ہے یہ بکنے کا بار بار بکتا ہے
قیمتیں بڑھاتی ہے رات بکنے والوں کی
اونچے اونچے داموں میں انتظار بکتا ہے
قیس اور رانجھا کے اشک رائیگاں ٹھہرے
ایک مسکراہٹ پر آج پیار بکتا ہے
آج کل بھروسے کا مول ہی نہیں کوئی
وعدے توڑے جاتے ہیں اعتبار بکتا ہے
صرف مفلسوں کی ہی بولیاں نہیں لگتیں
موقع ہاتھ آتے ہی مالدار بکتا ہے
سخت تر ارادے بھی پانی پانی ہوتے ہیں
بے بسی کے موسم میں اختیار بکتا ہے
سازشی وزیروں کی اندرونی سازش سے
بھولے بادشاہوں کا افتخار بکتا ہے
باغباں کی نیّت میں کچھ فتور آتے ہی
پھول سُوکھ جاتے ہیں اور نکھار بکتا ہے
ہر طرف ہے ایماں کا کاروبار زوروں پر
بک رہے ہیں پنڈت بھی دیندار بکتا ہے
لڑکھڑانے لگتے ہیں چند پاؤں بھی حافظ
رات گہری ہوتے ہی جب خمار بکتا ہے
حافظ کرناٹکی
امجد حسین
No comments:
Post a Comment