Friday, 30 August 2024

میاں مجبوریوں کا ربط اکثر ٹوٹ جاتا ہے

 میاں مجبوریوں کا ربط اکثر ٹُوٹ جاتا ہے

وفائیں گر نہ ہوں بُنیاد میں گھر ٹوٹ جاتا ہے

شناور کو کوئی دلدل نہیں دریا دیا جائے

جہاں کم ظرف بیٹھے ہوں سخنور ٹوٹ جاتا ہے

انا خود دار کی رکھتی ہے اس کا سر بُلندی پر

کسی پورس کے آگے ہر سکندر ٹوٹ جاتا ہے

ہم اپنے دوستوں کے طنز سن کر مُسکراتے ہیں

مگر، اس وقت کچھ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے

مِرے دُشمن کے جو حالات ہیں ان سے یہ ظاہر ہے

کہ اب شیشے سے ٹکرانے پہ پتھر ٹوٹ جاتا ہے

سنجو رکھی ہیں دل میں قیمتی یادیں مگر پھر بھی

بس اک نازک سی ٹھوکر سے یہ لاکر ٹوٹ جاتا ہے

کنارے پر نہیں اے دوست! میں خود ہی کنارہ ہوں

مجھے چھُونے کی کوشش میں سمندر ٹوٹ جاتا ہے


مینک اوستھی

No comments:

Post a Comment