سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے
کوئی کتنا مخالف ہو، اسے اپنا بناتی ہے
شناسا خوف کی تصویر ہے اس کی بیاضوں میں
مِری بیٹی حسیں پنجرے میں اک چڑیا بناتی ہے
تخیل حرف میں ڈھل کر ابھر آتا ہے کاغذ پر
سراپا سوچتا ہوں میں غزل چہرہ بناتی ہے
کسی پر مہرباں ہوتی ہے جب بھی دولت دنیا
اسے صاحب اسے قبلہ اسے کیا کیا بناتی ہے
گوارا کب ہے ممتا کو مِرا یوں دھوپ میں چلنا
مِری ماں اوڑھنی پھیلا کے اک چھاتا بناتی ہے
یہ اچھائی میں بھی صابر برائی ڈھونڈ لیتی ہے
یہ دنیا ہے الف پر بھی کبھی شوشہ بناتی ہے
صابر شاہ
No comments:
Post a Comment