Tuesday 27 August 2024

سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے

 سیاست جب ضرورت ہو نیا رشتہ بناتی ہے

کوئی کتنا مخالف ہو، اسے اپنا بناتی ہے

شناسا خوف کی تصویر ہے اس کی بیاضوں میں

مِری بیٹی حسیں پنجرے میں اک چڑیا بناتی ہے

تخیل حرف میں ڈھل کر ابھر آتا ہے کاغذ پر

سراپا سوچتا ہوں میں غزل چہرہ بناتی ہے

کسی پر مہرباں ہوتی ہے جب بھی دولت دنیا

اسے صاحب اسے قبلہ اسے کیا کیا بناتی ہے

گوارا کب ہے ممتا کو مِرا یوں دھوپ میں چلنا

مِری ماں اوڑھنی پھیلا کے اک چھاتا بناتی ہے

یہ اچھائی میں بھی صابر برائی ڈھونڈ لیتی ہے

یہ دنیا ہے الف پر بھی کبھی شوشہ بناتی ہے


صابر شاہ

No comments:

Post a Comment