Wednesday, 28 August 2024

غم ہستی نہ کچھ فکر دل و جاں ہے جہاں میں ہوں

 غم ہستی نہ کچھ فکر دل و جاں ہے جہاں میں ہوں

کہ ہر ہر گام پر کوئی نگہباں ہے جہاں میں ہوں

ہر اک نظارہ سو پردوں میں پنہاں ہے جہاں میں ہوں

خدا جانے کہاں کل بزم امکاں ہے جہاں میں ہوں

ہر اک جذبہ تعین سے گریزاں ہے جہاں میں ہوں

غم دل بے نیاز کفر و ایماں ہے جہاں میں ہوں

کمال بے خودی منزل بمنزل کام کرتا ہے

جنون جستجو سر در گریباں ہے جہاں میں ہوں

ہوا میں اک مسلسل ارتعاش شوق ہے پنہاں

فضا میں پیہم اک بجلی سی رقصاں ہے جہاں میں ہوں

غم حاصل مقید کر رہا ہے سعیٔ حاصل کو

مذاق آرزو دیوار زنداں ہے جہاں میں ہوں

مجھے ہر یوم عشرت پرتو روئے نگاریں ہے

شب غم سایۂ زلف پریشاں ہے جہاں میں ہوں

کہاں کے عیش و غم کیسی مرادیں کیسے اندیشے

کہ ساری زندگی خواب پریشاں ہے جہاں میں ہوں

جنون انسان کے انداز فرزانہ کو کہتے ہیں

خرد کا نام احساس پشیماں ہے جہاں میں ہوں

جو ہر منزل میں رہبر تھا وہ اب بھی ساتھ ہے ورنہ

یہاں ہر گام پر لغزش کا امکاں ہے جہاں میں ہوں

کسی سے کیف میں راز حقیقت کس طرح پوچھوں

ہر اک صورت ہر اک نظارہ حیراں ہے جہاں میں ہوں


کیف مرادآبادی

No comments:

Post a Comment