انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
مجبور ہے اس سے کہ خدا ہو نہیں سکتا
وہ عقدہ مِرے کام میں تقدیر نے ڈالا
جو ناخن تدبیر سے وا ہو نہیں سکتا
دہشت سے کوئی نام بھی لیتا نہیں، ورنہ
اس بزم میں کیا ذکر مِرا ہوا نہیں سکتا
کیوں کر ہو حریص ستم عشق کی سیری
غم رزق مقدر ہے سوا ہو نہیں سکتا
دل کیوں کہ خدنگ نگہ یار سے بچ جائے
یہ تیر قضا کا ہے خطا ہو نہیں سکتا
تمکیں سے نہ دیکھے جو کبھی آئینہ جھک کر
وہ مرتکب شرم و حیا ہو نہیں سکتا
کہنے کہ چلے دل کے عبث یہ بھی نہ جانا
گمراہ کبھی راہنما ہو نہیں سکتا
میں اس قدر اچھا تو نہیں ہوں کہ بہر آؤں
منصور نے دعویٰ جو کیا ہو نہیں سکتا
میں اس نگہِ ناز کا محکوم ہوں سالک
وابستۂ احکامِ قضا ہو نہیں سکتا
قربان علی سالک بیگ
No comments:
Post a Comment