دن کٹ رہے ہیں اپنے تری یاد کے سہارے
ورنہ کیسے جیتے، ہم قسمتوں کے مارے
عیاں نہ ہو کسی پہ اندر برستی بارش
بُوندوں میں بھیگتا رہا راوی کے کنارے
تنہائی کی وجہ سے خود بھی ہوں لا علم
لہریں یہ پوچھتی ہیں ساتھی کہاں تمہارے
لوگ کھو گئے جو خوشیاں تلاشتے تھے
بارش کے تعاقب میں جو ساتھ تھے ہمارے
خاموش پانیوں ہاتھ پیغام کوئی بھیجے
دریا پہ بھیگتی سی صبح کوئی گزارے
آنکھوں کے بھیگنے کا مطلب اب کون سمجھے
ویرانیوں سے عاطف تم کو کوئی پکارے
عاطف محتشم خان
No comments:
Post a Comment