Saturday 31 August 2024

لا میں اور الا میں پوشیدہ ہے تقدیر جہاں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

لاالہ الا ﷲ


لا میں اور اِلا میں پوشیدہ ہے تقدیرِ جہاں

لا ہے عرفانِ خودی، اِلا ہے تسخیرِ جہاں

قوم ہو یا فردِ واحد، لا جلال اِلا جمال

لا ہے آزادی تو اِلا رفعت و اوجِ کمال

لا سناتا ہے حدیثِ قبلِ آغازِ حیات

موجزن ہے کلمۂ اِلا میں آوازِ حیات

لا نے جب مانگی دماغِ ابنِ آزر سے دلیل

کر دیا اِلا نے تب اللہ کا اس کو خلیل

عقلِ انساں جب سمجھ لیتی ہے رمزِ لاالٰہ

ڈھونڈتی ہے نورِ الا اللہ پھر اس کی نگاہ

لا کے دم سے اک جہانِ تازہ پاتا ہے نمود

اور بھر دیتا ہے اس میں روح اِلا کا سرود

لا کے آگے سحرِ غیر اللہ بے بس بے اثر

اِلا کے آگے سمندر زیر پا، ٹکڑے قمر

جذبۂ لا جب دلِ انساں میں ہو جاتا ہے عام

برسرِ پیکار ہو جاتا ہے آقا سے غلام

لا ہے اعلانِ بغاوت، لا ہے ضربِ پے بہ پے

لا تو بجلی کی کڑک ہے، لا نہیں آوازِ نَے

حد سے جب لا بڑھنے لگتا ہے برنگِ اشتعال

تب سکھاتا ہے اسے اِلا ادائے اعتدال

اس لئے لازم ہے لا کے ساتھ اِلا کا یقیں

یعنی ہوں اک ساتھ دونوں خانۂ دل کے مکیں

لا واِلا جب بھی ہو جاتے ہیں باہم دست گیر

ٹوٹ گرتے ہیں زمانے بھر کے سب اصنامِ پیر

جب عرب والوں نے پایا لا و اِلا کا مقام

خود بھی بدلے اور بدلا دہر کا ناقص نظام

توڑ ڈالے ضربِ لا سے عُزیٰ و لات و منات

نورِ اِلا کی بدولت کر دئیے روشن جہات

جوشِ لا میں ہر قبائے کہنہ کر دی چاک چاک

تخت و تاجِ قیصر و کسریٰ کئے پیوندِ خاک

آتشِ لا میں جلا ڈالا خس و خاشاک کو

وہ بلندی پائی ششدر کر دیا افلاک کو

دشت ان کی برق و باراں سے پریشاں ہو گئے

بحر اُن کے زورِ طوفاں سے پریشاں ہو گئے

گرمیِ لاسے کیا برپا جہاں میں انقلاب

سوزِ اِلا سے پڑھائی زیست کی اُم الکتاب

خُلق و ایمان و محبت کا عَلم اونچا کیا

امن و انصاف و صداقت کا عَلم اونچا کیا

لوحِ دل سے نقشِ غیر اللہ مٹ کے رہ گیا

بندِ باطل سیلِ حق کی زد میں آ کر بہہ گیا

لا کا دم خم اب بھی آزادی طلب قوموں میں ہے

اب بھی اس کی حکمرانی سینکڑوں رنگوں میں ہے

اب بھی لا کی سرزنش سے ملّتیں بیدار ہیں

حاکم و محکوم باہم بر سرِ پیکار ہیں

رونما ہیں لا کے باعث انقلاباتِ عظیم

گِر رہے ہیں ریزہ ریزہ ہو کے اصنامِ قدیم

مٹتا جاتا ہے نظامِ کہنہ کا فاسد وجود

ہونے ہی والی ہے جہاں میں صبحِ روشن کی نمود

شرط یہ ہے بادِ لا دے مرکبِ اِلا کا ساتھ

یعنی دونوں گامزن ہوں ڈال کر ہاتھوں میں ہاتھ

اتحادِ لا و اِلا میں ہے قوموں کی حیات

یہ نہ ہوں تو ان کی ہستی بے حقیقت بے ثبات

منتظر ہے تیری اے حجرہ نشیں پھر رزم گاہ

سُوئے ہر فرعون لے چل پھر نشانِ لااِلٰہ

عرصۂ پیکار میں پھر خنجرِ لا کر بلند

درسِ اِلا سے زمانے بھر کو کر دے بہرہ مند

اے امینِ لا و اِلا تو ہے میرِ کائنات

تابعِ فرماں ہے تیرا یہ جہانِ شش جہات


ظہور احمد فاتح

No comments:

Post a Comment