محبتوں کا سفر کاش پھر دوبارہ ہو
ہو دل کے پاس کوئی اور غم کا چارہ ہو
کوئی تو ہو جو غم زندگی سمجھ پائے
کوئی تو ہو جو مِری زیست کا سہارا ہو
یہی دعا ہے کہ اللہ ہی صبر دے اس کو
کہ میری طرح کہیں جو بھی غم کا مارا ہو
شب فراق سے گھبرا گیا ہوں میں یارب
مِرے لیے بھی کسی صبح کا اشارہ ہو
پھر ایسے جینے سے بہتر ہے موت ہی اے دل
کہ جیسے قرض کسی غیر کا اتارا ہو
نوائے شوق سنانے کو جی لرزتا ہے
سنا ہی دوں جو اگر آپ کو گوارا ہو
اب اس جہان میں اپنا نہیں کوئی حمزہ
اسی میں خیر ہے دنیا سے اب کنارہ ہو
حمزہ علی شاہ
No comments:
Post a Comment