Saturday 24 August 2024

حرف سوئے لب اظہار نکل ہی آیا

 حرف سوئے لب اظہار نکل ہی آیا

خانۂ قید سے عیّار نکل ہی آیا

دستکوں میں وہی انداز تھا وقفہ تھا وہی

حلقۂ درد سے بیمار نکل ہی آیا

پوچھنے آیا ہے وہ آخری خواہش میری

آخرش موقعۂ اظہار نکل ہی آیا

تنگ تھا لمحۂ عشرت کی رجز خوانی سے

غم سنبھالے ہوئے تلوار نکل ہی آیا

رخنہ انداز ہوئی شورشِ زنجیر بہت

پھر بھی میں توڑ کے دیوار نکل ہی آیا

سوچتے ہی نہیں اربابِ جنوں اس کے سوا

ذکر لعل لب و رخسار نکل ہی آیا

میں نہ کہتا تھا کہ ہوجائیں گی آنکھیں پتھر

آئینہ جانب بازار نکل ہی آیا

شاخِ گل تک تھی بظاہر تو کوئی روک نہ ٹوک

بڑھ گئے ہاتھ تو اک خار نکل ہی آیا


یاور وارثی

No comments:

Post a Comment