سنگ ریزوں کی طرح پیش نظر رہتے ہیں
میرے کاسے میں پڑے لعل و گہر رہتے ہیں
سائے چنتے ہیں کڑی دھوپ کے صحرا سے ہم
پا شکستہ ہیں مگر محو سفر رہتے ہیں
کال کوئل کی صدائیں نہ شفق رنگ کہیں
شہر میں جانے کہاں شام و سحر رہتے ہیں
کھیلتے ہیں مِرے آنگن میں وہ خوش خوش باہم
رنج خوشیوں سے بہت شیر و شکر رہتے ہیں
خیمہ زن ہو تو گئے خانہ بدوشی نہ گئی
بے گھری میں بھی سدا دوش پہ گھر رہتے ہیں
قحط سالی ہے بصیرت کی نگر میں صابر
کور چشموں سے یہاں اہلِ نظر رہتے ہیں
صابر شاہ
No comments:
Post a Comment