Tuesday 27 August 2024

بارہا یورش افکار نے سونے نہ دیا

 بار ہا یورشِ افکار نے سونے نہ دیا

فکرِ آزاد ہے، آزار نے سونے نہ دیا

تھی تصور میں نہاں خانۂ دل کی تصویر

رات بھر دیدۂ بیدار نے سونے نہ دیا

مجھ سے تھے بر سرِ پیکار مِرے ذہن و ضمیر

مجھ کو بیدارئ کردار نے سونے نہ دیا

کوئی منظر تھا کہ تھا منظر رنگیں کا فریب

کیا کہیں خوابِ پُر اسرار نے سونے نہ دیا

مجھ پہ اس طرح سے روشن تھی حقیقت اپنی

عمر بھر چشمِ خبردار نے سونے نہ دیا

میں نے کچھ دُھوپ میں جلتے ہوئے چہرے دیکھے

پھر مجھے سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

لیث موضوعِ سخن فکرِ بشر تھی، ہم تھے

اور پھر گرمئ گُفتار نے سونے نہ دیا


لیث قریشی

No comments:

Post a Comment