ہوا کے دوش پہ اب میرا آشیانہ ہے
مجھے خبر ہے یہی گردشِ زمانہ ہے
قرار جاں ہیں بہاروں کے کچھ سِتم لیکن
خزاں کا طرزِ عمل بھی تو دوستانہ ہے
چمن میں حُسنِ تجلّی کا رنگ پھیل گیا
کلی کے رُخ پہ ہنسی جب سے عارفانہ ہے
جوازِ ہوش ہے قلب و نظر کی گہرائی
مذاقِ فطرتِ انساں مئے شبانہ ہے
لیے ہوئے کوئی سنجیدگی ہے چہرے پر
یہ اضطراب چُھپانے کا اک بہانہ ہے
جو دل پہ بیتی کسی نے بھی تو نہیں دیکھی
اسے فسانہ کہو گے تو سب فسانہ ہے
مِری نگاہ میں کائنات کیا شے ہے
بس اک حسنِ تعلّی کہ شاعرانہ ہے
نظر سے دل کا سفر مختصر سہی لیکن
یہاں پہنچنے میں درکار اک زمانہ ہے
کمال کُوئے بُتاں جس کو لوگ کہتے ہیں
"اسی گلی میں ہمارا غریب خانہ ہے"
فضل اکبر کمال
No comments:
Post a Comment