ہمسفر موج ہے قطرے کی دغا اس میں ہے
یہ جو ہے میری بقا میری فنا اس میں ہے
التوا کیوں ہے ابھی منزل الفت کا حُصُول
راہ دُشوار نہیں آبلہ پا اس میں ہے
نرمیٔ گُل سے سوا ساخت میں ہے نرم و گُداز
سنگ خارا سا دل سخت بھی کیا اس میں ہے
کیا سبب واپسیٔ تیغ زِ صدر عاشق
جب کہ آراستگی کو رنگِ حنا اس میں ہے
لمس گیسوئے صنم بیش خطرناک نہیں
کیا خبر کون سا تکلیمی عَصا اس میں ہے
اے مسیحا! تُو مجھے نُسخۂ الفت سے نواز
مرض دل ہے مگر دل کی شِفا اس میں ہے
خامشی دیدۂ احساس کی ہوتی ہے دلیل
ژرف بے ربط ہو کوئی تو انا اس میں ہے
بدر۔م۔ژرف
بدرمنیر ژرف
No comments:
Post a Comment