اجاڑ لفظوں کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں
جو خود نوشتہ ہے اس کہانی سے ڈر گئے ہیں
ہمیں ہوائے قریبِ صحرا نے یہ خبر دی
کہ تشنہ لب تیرے اب کے پانی سے ڈر گئے ہیں
ہوئے تھے تم غیر، لیکن اب مرحلہ ہے مشکل
تمہاری غیروں کی ترجمانی سے ڈر گئے ہیں
ہم ایسے ہجرت نصیب تیری گلی میں آ کر
روایتِ عشق، بے مکانی سے ڈر گئے ہیں
چلن کو صیاد کے جو دیکھا تو ہم نے سمجھا
تمام یاروں کی قدر دانی سے ڈر گئے ہیں
جو میری کم گوئی کی وجہ سے ہوئے تھے دشمن
وہ میری تقریر کی روانی سے ڈر گئے ہیں
جنہیں ملا تاج اذنِ شرحِ وفائے جاناں
وہ سب وفاؤں کی رائیگانی سے ڈر گئے ہیں
طاہر عبید تاج
No comments:
Post a Comment