Wednesday 28 August 2024

یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ

 یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ 


ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتداء ہے یہ

اور اب وہ وقت آے گا کہ ساری قوم روئے گی 

اور اپنے دل کے داغ اپنے آنسوں سے دھوئے گی 

یہ سر زمین پاک ہے یا ارض کربلا ہے یہ 

یہ لوٹ مار قتل و خوں، ڈکیتیاں، تباہیاں 

بموں کی زد پہ ہنستی گاتی جگمگاتی بستیاں 

بہشت میں کہاں سے اک جہنم آ گیا ہے یہ 

یہ کس کی آبرو لٹی، یہ کس کا سینہ شق ہوا 

یہ کون بھائی ہے کہ جس سے بھائی جان بحق ہوا 

بہن کی زندہ لاش کون یوں بھنبھوڑتا ہے یہ 

یہ خودکشی کی مشق ہے، کہ جنگ خانہ ساز ہے 

کہ غزنوی کمال فن بصورت ایاز ہے 

جو ہم میں جان بلب ہے وہ ضمیر پوچھتا ہے یہ 

ہم اپنے ہاتھ ہی سے اپنا جسم کاٹتے بھی ہیں 

پھر اپنی ہی زبان سے اپنا خوں چاٹتے بھی ہیں 

اگر یہ ہے جنوں تو جنوں کی انتہا ہے یہ

سنا ہے اس فساد میں پڑوسیوں کا ہاتھ ہے 

ہماری اپنی آستیں میں دشمنوں کا ہاتھ ہے 

خبر نہیں، فسانہ ہے، یا امر واقعہ ہے یہ

دیار پاک میں سدا عجیب سلسلہ رہا 

زبان و دل کے درمیان ہمیشہ فاصلہ رہا 

سیاست وطن کا اک طویل سانحہ ہے یہ 

خدا و دین کے نام پر اگر یہ قوم ایک تھی

تمام اُمتوں کے درمیان سب سے نیک تھی 

تو آج کیوں ہے بدترین، کیوں بہم جدا ہے یہ 

سبھی ہیں اس نفاق کے جواز کی تلاش میں 

یہ راز ہے چُھپا ہوا سیاست معاش میں 

علاقہ واریت نہ قومیت کا مسئلہ ہے یہ 

شناخت کی ہر اک شکل معتبر صحیح مگر 

ثقافتوں کے نام پر یہ فوقیت بہم دگر 

شکست خوردگی کا آئینہ ہے اور کیا ہے یہ

حسب نسب کی خوش گمانیاں ہیں اور آدمی 

خیال و خواب کی کہانیاں ہیں اور آدمی 

اور آدمی ہے کیا، ہوا کی زد پہ اک دِیا ہے یہ 

یہی دِیا بھڑک اٹھے تو مہر و ماہ کچھ نہیں 

جو بُجھ گیا تو یہ بجُز غُبار راہ کچھ نہیں 

مگر ہم آج کیوں دُھواں دُھواں ہیں سوچنا ہے یہ 

وطن میں رہ رہے ہیں اور وطن سے واسطہ نہیں 

ہمارے گرد و پیش آج کوئی راستہ نہیں 

زمین پر ہیں یوں قدم کہ زیر پا خلا ہے یہ

میں اک نوجوان کی گُفتگو یہاں رقم کروں 

میری تو آنکھ نم ہے، آپ کی بھی آنکھ نم کروں 

وہ کہہ رہا تھا؛ آپ کے گناہ کی سزا ہے یہ 

وہ قوم جو بکھر چکی وہ کیا سمٹ سکے گی اب 

یہ نفرتوں کی ہے خلیج خاک پٹ سکے گی اب 

کہ آپ ہی کے نقشِ پا کا اک سلسلہ ہے یہ 

بزرگ اپنے فیصلوں پہ شرمسار ہوں نہ ہوں 

حقیقتوں سے ان کے خواب ہمکنار ہوں نہ ہوں

ہمیں جو آپ نے دیا وہ کاسہ گدا ہے یہ 

کہا گیا تھا یہ وطن بنا ہے سب کے واسطے 

تو ہم پہ آج کیوں ہیں بند زندگی کے راستے 

یہ خانہ جنگیاں نہیں جہاد از بقاء ہے یہ 

میں سوچتا ہوں ایسے نوجوان کو کیا جواب دوں 

نظر سے گر چکے جو خواب ان کو کیسے آب دوں 

میں کس طرح کہوں اسے فلاں کا راستہ ہے یہ 

ادھر ہیں اقتدار کے نشے میں چُور حکمران 

ادھر عوام کا ہجوم مشتعل شرر فشاں 

اور ان کے درمیان وطن کا بخت نا رسا ہے یہ 

یہی تو کشمکش تھی جو ہمیں دو نیم کر گئی  

ہر اک خواب چھین کر ہمیں یتیم کر گئی 

ہمارے پاس اب ہے کیا بقاء کا آسرا ہے یہ 

دھڑک رہا ہے دل میرا وطن کا حال دیکھ کر 

یہ انتشار دیکھ کر، یہ اشتعال دیکھ کر 

خدا بچائے یہ کس طرف میرا وطن چلا ہے یہ 

ابھی تو کچھ نہیں ہوا، ابھی تو ابتداء ہے یہ


حمایت علی شاعر

No comments:

Post a Comment