Thursday, 29 August 2024

نہاں جو روح میں ہے وہ بشر آواز دیتا ہے

 نہاں جو روح میں ہے وہ بشر آواز دیتا ہے

عزیزو! میں چلا مجھ کو خضر آواز دیتا ہے

خلیل عصر مجھ کو مان کر آواز دیتا ہے

کسی کافر جوانی کا شرر آواز دیتا ہے

مِری قسمت میں لکھی ہے مسافت حشر تک شاید

مِرے رکھتے ہی احساس سفر آواز دیتا ہے

میں اپنی جان پر بھی کھیل کر اُس کو بچا لوں گا

مجھے قاتل! مسیحا مان کر آواز دیتا ہے

اندھیروں میں پلا ہوں میں ازل سے آج جانے کیوں

مجھے بے ساختہ نورِ سحر آواز دیتا ہے

پڑے ہیں خواب غفلت میں ابھی تک کارواں والے

جرس مُدت سے بچتا ہے، گجر آواز دیتا ہے

مجھے خطروں سے لڑ جانے کی عادت سی ہے اے مضطر

خدا حافظ! کہ اب مجھ کو بھنور آواز دیتا ہے


تاج مضطر

No comments:

Post a Comment