Monday 26 August 2024

وصف لکھتا ہوں سر دیوان بسم اللہ کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وصف لکھتا ہوں سرِ دیوان بسم اللہ کا

لوحِ سینہ پر قلم بن کر الف اللہ کا

صفحۂ قرآن نہ کیوں رُوئے محمدؐ کو کہوں

ایسی صورت پر ہے موزوں تاج بسم اللہ کا

حُسنِ یوسفؑ یوں تِرے جلوے کا تھا پیغامبر

دو قدم رہتا ہے آگے جیسے تارا ماہ کا

ایک تنکے کے اُتارے کا بھی احساں سر پہ ہے

کوہ سے بارِ گراں رتبہ ہے اس جانکاہ کا

ماروں ٹھوکر اگر تخت شاہی مجھ کو ملے

بن کے بیٹھا ہوں گدا اب ایک شہنشاہ کا

منزلوں دشتِ طلب میں اپنے سایہ سے ہوں دور

وہ مسافر ہوں کہ جو طالب نہیں ہمراہ کا

مجھ کو خشکی اور تری کا یوں سفر درپیش ہے

آنسوؤں کا کارواں ہے اور علم ہے آہ کا

بیدم اب دل کے لگانے کا زمانہ ہی نہیں

اب تو گرنا ہے کنویں میں نام لینا چاہ کا

آفتابِ روز محشر سے بھی بیدم ہو بُلند

گاڑ دوں گر حشر کے میداں میں جھنڈا آہ کا


بیدم شاہ وارثی

No comments:

Post a Comment