معیار کو اٹھاؤں تو کردار گر پڑے
چھت کو سنبھالتا ہوں تو دیوار گر پڑے
تُو اور کیا بلند ہو، میں اور کیا گروں
دیکھوں بھی تیری سمت تو دستار گر پڑے
ایسا کوئی کمال کہ میدانِ جنگ میں
ہر جنگجُو کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے
اتنا ہُوا کہ رزقِ سمندر نہیں ہوئے
اِس پار گر پڑے کبھی اُ س پار گر پڑے
دیکھا پلٹ کے تو کہیں پیچھے کھڑا تھا وہ
جیسے کسی کے پاؤں سے رفتار گر پڑے
بے حوصلہ نہیں تھا کوئی اِک بھی ڈار میں
دو چار اوپر اُٹھ گئے، دو چار گر پڑے
مختار جاوید
No comments:
Post a Comment