پیار ان کو دیکھ کر بے اختیار آ ہی گیا
وہ جو آئے، دل مِرا دیوانہ وار آ ہی گیا
دل مِرے پہلو سے جائے گا نہ آتا تھا یقیں
اک نظر دیکھا انہیں تو اعتبار آ ہی گیا
اب گیا ان کا تصور جی گیا بیمار عشق
شدت غم میں بھی چہرے پر نکھار آ ہی گیا
بجھتے بجھتے جل اٹھے پھر دیدہ و دل کے چراغ
سرد سینے میں امیدوں کا شرار آ ہی گیا
آئیے دہرائیں پھر الفت کی رنگیں داستاں
پھر وہی منزل وہی عہد بہار آ ہی گیا
بزم میں آمد ہوئی ہے کس تغافل کیش کی
تشنگیٔ شوق کے دل کو قرار آ ہی گیا
ذکر درد دل پہ وہ بگڑا کیے، لیکن حبیب
لب پہ اقرارِ محبت ایک بار آ ہی گیا
جے کرشن چودھری حبیب
No comments:
Post a Comment