Wednesday 28 August 2024

دے کے سینوں کے لیے تحفۂ ایمان گیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دے کے سینوں کے لیے تحفۂ ایمان گیا

سُوئے فردوس بریں آج وہ ذیشان گیا

جس کے سجدے ہوئے تلوار کے سائے میں ادا

بر سرِ نیزہ وہ پڑھتا ہوا قُرآن گیا

اپنے سینے میں لیے پھرتا ہے یادیں ان کی

وقت بھی مرتبۂ ابنِ علیؑ جان گیا

دیکھ کر ملکِ فلسطین کا خُونی منظر

"کربلا آج مِرا تیری طرف دھیان گیا"

تھی خبر جس کو یقینی ہے شہادت میری

پھر بھی کس شان سے وہ بر سرِ میدان گیا

جو اُٹھا کشتئ ایماں کو ڈبونے کے لیے

سُوئے ساحل اسے لے کر وہی طوفان گیا

حق پرستوں کی شہادت ہے حیات ابدی

سر یہ شبیرؑ کا کرتا ہوا اعلان گیا

خود جھُلستا رہا صحرا میں ہماری خاطر

اور ہمارے لیے رحمت کی ردا تان گیا

آزمائش تھی نبیؐ زادوں کی، یہ جنگ نہ تھی

اس حقیقت کو جہاں پوری طرح مان گیا

ان کی چوکھٹ پہ تصورکی رفاقت میں کفیل

لے کے ہمراہ مجھے بھی مِرا ارمان گیا


کفیل احمد فتحپوری

No comments:

Post a Comment