نے کثرت سپاہ نہ ہتھیار دیکھ کر
پسپا ہوا عدو مِرا کردار دیکھ کر
تلوار میں نے ڈال لی واپس میان میں
رستہ مذاکرات کا ہموار دیکھ کر
دُشمن نے پیش قدمی اچانک ہی روک لی
بانکے سجیلے جسموں کی دیوار دیکھ کر
وہ اب بھی چل رہا ہے زمانے کے ساتھ ساتھ
میں رُک گیا زمانے کی رفتار دیکھ کر
تلوار میری رُک گئی حُرمت کے پاس سے
سر پر سجی غنیم کے دستار دیکھ کر
کندہ ہے ہر تنے پہ تِرا نام آج بھی
آیا ہوں کل ہی گاؤں کے اشجار دیکھ کر
خالد مصطفیٰ
No comments:
Post a Comment