Saturday 24 August 2024

بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا

 بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا

زندگی دھوپ میں صحرا کا سفر ہے بابا

تم کہاں آ گئے شیشوں کی تمنّا لے کر

یہ تو اک سنگ فروشوں کا نگر ہے بابا

ہم ہیں قید در و دیوار سے آزاد ہمیں

جس جگہ رات گزاری وہی گھر ہے بابا

من ہو درویش تو پھر تن پہ قبا ہو کہ عبا

جوگ بانا نہیں انداز نظر ہے بابا

بطن ہر سنگ میں دیکھے جو کوئی پیکر ناز

کس کو حاصل وہ صنم ساز نظر ہے بابا

سوچ کر دشتِ تمنا میں قدم رکھ صابر

اس مروتھل میں بہ ہر گام خطر ہے بابا


نوبہار صابر

No comments:

Post a Comment