بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا
زندگی دھوپ میں صحرا کا سفر ہے بابا
تم کہاں آ گئے شیشوں کی تمنّا لے کر
یہ تو اک سنگ فروشوں کا نگر ہے بابا
ہم ہیں قید در و دیوار سے آزاد ہمیں
جس جگہ رات گزاری وہی گھر ہے بابا
من ہو درویش تو پھر تن پہ قبا ہو کہ عبا
جوگ بانا نہیں انداز نظر ہے بابا
بطن ہر سنگ میں دیکھے جو کوئی پیکر ناز
کس کو حاصل وہ صنم ساز نظر ہے بابا
سوچ کر دشتِ تمنا میں قدم رکھ صابر
اس مروتھل میں بہ ہر گام خطر ہے بابا
نوبہار صابر
No comments:
Post a Comment