Sunday 25 August 2024

وہ اشک ضبط اگر آنکھ سے نکل جاتا

 وہ اشکِ ضبط اگر آنکھ سے نکل جاتا

مجھے یقین ہے پتھر کا دل پگھل جاتا

خدا کا شکر اسے انسان سہہ گئے ورنہ

یہ ہجر ارض و سماوات تک نگل جاتا

بھرا ہوا تھا وہ رستہ حسین چہروں سے

قدم قدم پہ مِرا ذائقہ بدل جاتا

اگر تُو چاہتی مُرجھائے پھُول کھل اٹھتے

تُو چاہتی تو یہ متروک نوٹ چل جاتا

مِرے چراغ تجھے شام نے بچایا ہے

یہ آفتاب تِری رات بھی نگل جاتا

کسی کی گاڑی نکلتی تھی پونے بارہ بجے

کسی کا دن تھا کہ بارہ بجے ہی ڈھل جاتا

بدن نہیں تھا الاؤ تھا سامنے آثم

میں اس کو ہاتھ لگاتا تو ہاتھ جل جاتا


آثم سیال

No comments:

Post a Comment