Wednesday 28 August 2024

خزاں سے کون سی شے چھین لی بہاروں نے

 خزاں سے کون سی شے چھین لی بہاروں نے

گُلوں کو آنکھ دکھائی چمن میں خاروں نے

چُھپا چُھپا کے رکھا تھا جسے بہاروں نے

اُگل دیا ہے وہی خُون لالہ زاروں نے

اسی مقام پہ پہنچے ہیں تیرے دیوانے

جہاں سے آنکھ چُرائی تھی ہوشیاروں نے

شب فراق اُمیدوں کی لو بھی کانپ اُٹھی

کچھ ایسے گیت بھی گائے ہیں چاند تاروں نے

دُعا ہے پھر بھی سلامت رہے یہ مے خانہ

عوض میں مے کے پیا خُون بادہ خواروں نے

سکوں کی بھیک تو مانگی نہ تھی کبھی میں نے

کرم کیا ہے کہاں میرے غم گُساروں نے

چبھو دئیے ہیں دلوں میں جو خار غم تم نے

انہیں سے زخم کُریدے وفا شعاروں نے

کہاں کا ذوق نظر خود نظر ہے گُم فائق

چُھپا لیا ہے مجھے یوں تِرے نظاروں نے


فائق برہانپوری

No comments:

Post a Comment