Thursday 22 August 2024

جب بھی سحر آئی یہاں بادۂ گلگوں کا نشہ

 جب بھی سحر آئی یہاں

بادۂ گلگوں کا نشہ

ابر کے پیکر میں رچا

چشمہ سیمیں میں بہا

موج کے ساغر میں رچا

آتش گلزار بنا غنچۂ احمر میں رچا

جب بھی سحر آئی یہاں

چاند ستاروں کے شرر

شرق کی لالی میں گھلے

اوس کے تابندہ گہر

نور کے دھارے میں بہے

دشت میں تا حدِ نظر جال شعاعوں کے تنے

جب بھی سحر آئی یہاں

ناچ اٹھی باد صبا

جاگ اٹھے نغمہ سرا

رنگ اڑے عطر بہا

اشک تھمے درد مٹا

رات کے خاموش سمندر سے اُٹھا سیل نوا

جب بھی سحر آئی یہاں

اس کا یہی روپ رہا

اس کا یہی رنگ رہا

رقص تجلی کے لیے

آئینے کوتاہ پڑے

صحن جہاں تنگ رہا پہن بیاں تنگ رہا

کل کی ضیاء آج کی ضَو

یہ بھی کوئی بات ہوئی

جب بھی تھمی وقت کی رَو

جب بھی کبھی رات ہوئی

شعلۂ تغیّر کی لو برق صفت تیز ہوئی نور کی برسات ہوئی

جب بھی اٹھا شور درا

راہ اُجلتی ہی رہی

قافلہ چلتا ہی رہا

چشمۂ رفتار سدا

موڑ بدلتا ہی رہا

سینۂ امواج میں اک سیل مچلتا ہی رہا

جب بھی بہار آئی یہاں

فطرت رنگیں چمن

پھول اُگلتی ہی رہی

محفل نو ہو کہ کُہن

شہر ہوں یا دشت و دمن

شمع مِرے راگ کی جل جل کے پگھلتی ہی رہی

تاکہ نمایاں ہو کبھی

قسمت آدم کی سحر

جس کے لیے شام نہیں

جس کے نظارے کو ابھی

تاب نظر عام نہیں

جس کے نقیبوں کو کسی دور میں آرام نہیں


شفیق فاطمہ شعریٰ

No comments:

Post a Comment