جب بھی سحر آئی یہاں
بادۂ گلگوں کا نشہ
ابر کے پیکر میں رچا
چشمہ سیمیں میں بہا
موج کے ساغر میں رچا
آتش گلزار بنا غنچۂ احمر میں رچا
جب بھی سحر آئی یہاں
چاند ستاروں کے شرر
شرق کی لالی میں گھلے
اوس کے تابندہ گہر
نور کے دھارے میں بہے
دشت میں تا حدِ نظر جال شعاعوں کے تنے
جب بھی سحر آئی یہاں
ناچ اٹھی باد صبا
جاگ اٹھے نغمہ سرا
رنگ اڑے عطر بہا
اشک تھمے درد مٹا
رات کے خاموش سمندر سے اُٹھا سیل نوا
جب بھی سحر آئی یہاں
اس کا یہی روپ رہا
اس کا یہی رنگ رہا
رقص تجلی کے لیے
آئینے کوتاہ پڑے
صحن جہاں تنگ رہا پہن بیاں تنگ رہا
کل کی ضیاء آج کی ضَو
یہ بھی کوئی بات ہوئی
جب بھی تھمی وقت کی رَو
جب بھی کبھی رات ہوئی
شعلۂ تغیّر کی لو برق صفت تیز ہوئی نور کی برسات ہوئی
جب بھی اٹھا شور درا
راہ اُجلتی ہی رہی
قافلہ چلتا ہی رہا
چشمۂ رفتار سدا
موڑ بدلتا ہی رہا
سینۂ امواج میں اک سیل مچلتا ہی رہا
جب بھی بہار آئی یہاں
فطرت رنگیں چمن
پھول اُگلتی ہی رہی
محفل نو ہو کہ کُہن
شہر ہوں یا دشت و دمن
شمع مِرے راگ کی جل جل کے پگھلتی ہی رہی
تاکہ نمایاں ہو کبھی
قسمت آدم کی سحر
جس کے لیے شام نہیں
جس کے نظارے کو ابھی
تاب نظر عام نہیں
جس کے نقیبوں کو کسی دور میں آرام نہیں
شفیق فاطمہ شعریٰ
No comments:
Post a Comment