ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے
کوئی اہل وفا کا امتحاں باقی نہ رہ جائے
بہ طرز نو سنایا نو سنایا بارہا افسانۂ ہستی
کہ غم کا کوئی انداز بیاں باقی نہ رہ جائے
جہاں تک ہو سکے تجھ سے ہر اک لے میں پکار ان کو
دل محزوں کوئی طرز فغاں باقی نہ رہ جائے
ہر اک منصور کا دار و رسن سے سامنا ہو گا
غرض یہ ہے کہ کوئی رازداں باقی نہ رہ جائے
نہ ہو انجام میرا جو ہوا فرہاد و مجنوں کا
مٹاؤ اس طرح نام و نشاں باقی نہ رہ جائے
کبھی غیروں نے پرکھا تھا، اب اپنے آزماتے ہیں
مِری ہمت کا کوئی امتحاں باقی نہ رہ جائے
تعجب تو یہ ہے اب باغباں نے دل میں ٹھانی ہے
چمن میں کوئی شاخِ آشیاں باقی نہ رہ جائے
شفا ایثار میں پابندئ دیر و حرم کیسی
مِرے سجدوں میں قیدِ آستاں باقی نہ رہ جائے
شفا دہلوی
پریم لال
No comments:
Post a Comment