Monday 26 August 2024

ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے

 ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے

کوئی اہل وفا کا امتحاں باقی نہ رہ جائے

بہ طرز نو سنایا نو سنایا بارہا افسانۂ ہستی

کہ غم کا کوئی انداز بیاں باقی نہ رہ جائے

جہاں تک ہو سکے تجھ سے ہر اک لے میں پکار ان کو

دل محزوں کوئی طرز فغاں باقی نہ رہ جائے

ہر اک منصور کا دار و رسن سے سامنا ہو گا

غرض یہ ہے کہ کوئی رازداں باقی نہ رہ جائے

نہ ہو انجام میرا جو ہوا فرہاد و مجنوں کا

مٹاؤ اس طرح نام و نشاں باقی نہ رہ جائے

کبھی غیروں نے پرکھا تھا، اب اپنے آزماتے ہیں

مِری ہمت کا کوئی امتحاں باقی نہ رہ جائے

تعجب تو یہ ہے اب باغباں نے دل میں ٹھانی ہے

چمن میں کوئی شاخِ آشیاں باقی نہ رہ جائے

شفا ایثار میں پابندئ دیر و حرم کیسی

مِرے سجدوں میں قیدِ آستاں باقی نہ رہ جائے


شفا دہلوی

پریم لال

No comments:

Post a Comment