Thursday, 8 August 2024

خیابانوں میں سبزہ بولتا ہے

خیابانوں میں سبزہ بولتا ہے

گھٹا برسے تو صحرا بولتا ہے

یہاں جو سانس لینا بولتا ہے

وہ دم بھرتا ہے تیرا بولتا ہے

برے جو کام کرنا بولتا ہے

برا ہی نام اس کا بولتا ہے

جسے پانی نہ ملنا بولتا ہے

تِرے چاہِ ذقن کا بولتا ہے

وہ جب بھی دیکھ لینا بولتا ہے

نصیبہ کا چمکنا بولتا ہے

شبوں کو جو بھی پہنا بولتا ہے

ہمیشہ حال تیرا بولتا ہے

تِرا جو نام لینا بولتا ہے

صدا میں اس کی نغمہ بولتا ہے

جو یاں آواز کرنا بولتا ہے

نگاہِ ناز تیرا بولتا ہے

جو سب کو ایرا غیرا بولتا ہے

وہ یاروں کو ترسنا بولتا ہے

وہ گانا جب غزل کا بولتا ہے

ہمیں ہی ساز دینا بولتا ہے

کدورت جو نہ رکھنا بولتا ہے

وہ دل ہے آئینہ سا بولتا ہے

جو تجھ کو دیکھ لینا بولتا ہے

وہ اپنی سرخوشی کا بولتا ہے

یہاں جو پیار کرنا بولتا ہے

وہ ہم سے مشوروں کا بولتا ہے


عاشق کیرانوی

No comments:

Post a Comment