خیابانوں میں سبزہ بولتا ہے
گھٹا برسے تو صحرا بولتا ہے
یہاں جو سانس لینا بولتا ہے
وہ دم بھرتا ہے تیرا بولتا ہے
برے جو کام کرنا بولتا ہے
برا ہی نام اس کا بولتا ہے
جسے پانی نہ ملنا بولتا ہے
تِرے چاہِ ذقن کا بولتا ہے
وہ جب بھی دیکھ لینا بولتا ہے
نصیبہ کا چمکنا بولتا ہے
شبوں کو جو بھی پہنا بولتا ہے
ہمیشہ حال تیرا بولتا ہے
تِرا جو نام لینا بولتا ہے
صدا میں اس کی نغمہ بولتا ہے
جو یاں آواز کرنا بولتا ہے
نگاہِ ناز تیرا بولتا ہے
جو سب کو ایرا غیرا بولتا ہے
وہ یاروں کو ترسنا بولتا ہے
وہ گانا جب غزل کا بولتا ہے
ہمیں ہی ساز دینا بولتا ہے
کدورت جو نہ رکھنا بولتا ہے
وہ دل ہے آئینہ سا بولتا ہے
جو تجھ کو دیکھ لینا بولتا ہے
وہ اپنی سرخوشی کا بولتا ہے
یہاں جو پیار کرنا بولتا ہے
وہ ہم سے مشوروں کا بولتا ہے
عاشق کیرانوی
No comments:
Post a Comment