شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اُجڑی گلیاں
آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلّور سے پاؤں والے
مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند
مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کے مانند
دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے
سیلاب سے برباد،۔ مکانات کے مانند
میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں
اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کے مانند