Monday, 17 December 2012

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے

شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
اب کے بستی نظر آتی نہیں اُجڑی گلیاں
آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
کتنے سادہ تھے وہ بلّور سے پاؤں والے

بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے

بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے
نہ اپنے زخم ہی مہکے، نہ دل کے چاک سلے
کہاں تلک کوئی ڈھونڈے مسافروں کا سراغ
بچھڑنے والوں کا کیا ہے، ملے ملے نہ ملے
عجیب قحط کا موسم تھا اب کے بستی میں
کیے ہیں بانجھ زمینوں سے بارشوں نے گِلے

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ

چاندنی رات میں اس پیکرِ سیماب کے ساتھ
میں بھی اُڑتا رہا اک لمحہ بے خواب کے ساتھ
کس میں ہمت ہے کہ بدنام ہو سائے کی طرح
کون آوارہ پھرے جاگتے مہتاب کے ساتھ
آج کچھ زخم، نیا لہجہ بدل کر آئے
آج کچھ لوگ نئے مل گئے احباب کے ساتھ

وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے

وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اداس کر کے مجھے
جہاں نہ تو نہ تیری یاد کے قدم ہوں گے
ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے
ہوائے دشت مجھے اب تو اجنبی نہ سمجھ
کہ اب تو بھول گئے راستے بھی گھر کے مجھے

کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو

کوئی نئی چوٹ پھر سے کھاؤ اداس لوگو 
کہا تھا کس نے کہ مسکراؤ اداس لوگو
گزر رہی ہیں گلی سے پھر ماتمی ہوائیں
کواڑ کھولو ، دئیے بجھاؤ ، اداس لوگو
جو رات مقتل میں بال کھولے اتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ اداس لوگو

کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر

کس نے سنگِ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
اک سکوتِ مرگ طاری ہے در و دیوار پر
تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے کہے
مجھ کو زنجیریں ملی ہیں جرأتِ اظہار پر
شاخِ عریاں پر کھلا اک پھول اس انداز سے
جس طرح تازہ لہو چمکے نئی تلوار پر

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا، شگوفہ بھی، شرر بھی
اُترا نہ گریباں میں مقدّر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی
حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دِگر بھی

تن پہ اوڑھے ہوئے صدیوں کا دھواں شام فراق

تن پہ اوڑھے ہوئے صدیوں کا دھواں شامِ فراق
دل میں اتری ہے عجب سوختہ جاں، شامِ فراق
خواب کی راکھ سمیٹے گی، بکھر جائے گی
صورتِ شعلۂ خورشید رُخاں شامِ فراق
باعثِ رونقِ اربابِ جنوں ویرانی
حاصلِ وحشتِ آشفتہ سراں شامِ فراق

اب اے میرے احساس جنوں کیا مجھے دینا

اب اے میرے احساسِ جنوں کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا ہے تو صحرا مجھے دینا
تُم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گِرتی ہوئی دیوار کا سایہ مجھے دینا
جب وقت کی مُرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو 
اس شاخ سے ٹوٹا ہو لمحہ مجھے دینا

Friday, 14 December 2012

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے کلام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے، مرے نام آتے ہیں
تابِ نظارہ کسے دیکھے جو ان کے جلوے
بجلیاں کوندتی ہیں، جب لبِ بام آتے ہیں 
تو سہی حشر میں تجھ سے جو نہ یہ کہوا دوں
دوست وہ ہوتے ہیں جو وقت پہ کام آتے ہیں

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں

کبھی فلک کو پڑا دل جلوں سے کام نہیں
اگر نہ آگ لگا دوں، تو داغؔ نام نہیں
وفورِ یاس نے یاں کام ہے تمام کیا
زبانِ یار سے نکلی تھی نا تمام نہیں 
وہ کاش وصل کے انکار پر ہی قائم ہوں
مگر انہیں تو کسی بات پر قیام نہیں 

یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں

یہ کیا کہا، کہ داغ کو پہچانتے نہیں؟
وہ ایک ہی تو شخص ہے، تم جانتے نہیں
بدعہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں
کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں
وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم
کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ساز، یہ کینہ ساز کیا جانیں
ناز والے، نیاز کیا جانیں
شمع رُو آپ گو ہوئے، لیکن
لطفِ سوز و گداز کیا جانیں
کب کسی در کی جُبّہ سائی کی
شیخ صاحب، نماز کیا جانیں

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

غضب کِیا تِرے وعدے پہ اعتبار کِیا
تمام رات قیامت کا انتظار کِیا
کسی طرح جو نہ اُس بت نے اعتبار کِیا
مِری وفا نے مجھے خوب شرمسار کِیا
ہنسا ہنسا کے شبِ وصل اشک بار کِیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کِیا

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے 
با ہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے 
بار بار اُٹھنا اسی جانب نگاہِ شوق کا 
اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

وصل ہو جائے يہيں حشر ميں کيا رکھا ہے

وصل ہو جائے يہيں، حشر ميں کيا رکھا ہے
آج کی بات کو، کيوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تُو شيشے ميں کيا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس ميں بھرا رکھا ہے
کہتے ہيں آئے جوانی تو يہ چوری نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہمنفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد! پتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمّہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بے تاب نہاں، یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں، پایاب ہیں ہم

بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم تری محبت نہاں رہے گی

بدن میں جب تک کہ دل ہے سالم، تری محبت نہاں رہے گی
یہی تو مرکز ہے، یہ نہ ہو گا، تو پھر محبت کہاں رہے گی
بہت سے تنکے چنے تھے میں نے، نہ مجھ سے صیّاد تُو خفا ہو
قفس میں گر مر بھی جاؤں گا میں،، نظر سوئے آشیاں رہے گی
ابھی سے ویرانہ پن عیاں ہے، ابھی سے وحشت برس رہی ہے
ابھی تو سنتا ہوں کچھ دنوں تک بہار اے آشیاں رہے گی

دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

دائم پڑا ہُوا تِرے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یارب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہُوں میں

کیوں میں تسکین دل اے یار کروں یا نہ کروں

کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟ 
سُن لے اک بات مری تُو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستمگار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ مرے بالِیں سے کہ دَم رکتا ہے
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں؟

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے
نیم بسمل کئی ہونگے کئی بے جاں ہونگے
دفن جب خاک میں ہم سوختہ ساماں ہونگے
فلسِ ماہی کے گل شمع شبستاں ہونگے
تابِ نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں 
اور بن جائینگے تصویر جو حیراں ہونگے

ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں

ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں
آگ کی طرح جدھر جاویں، دہکتے جاویں
اے خوشا مست کہ تابوت کے آگے جس کے
آب پاشی کے بدل مئے کو چھڑکتے جاویں
جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے تِرے
ہم کہاں تک تِرے پہلو سے سرکتے جاویں

مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند

 مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کے مانند

مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کے مانند

دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد،۔ مکانات کے مانند

میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کے مانند

اس ڈھب سے کیا کیجے ملاقات کہیں اور

اِس ڈھب سے کِیا کیجے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے، رہو رات کہیں اور
کیا بات کوئی اس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اِشارات کہیں اور
اس ابر میں پاؤں مَیں کہاں دخترِ رز کو
رہتی ہے مدام اب تو وہ بد ذات کہیں اور

کتنی بے ساختہ خطا ہوں میں

کتنی بے ساختہ خطا ہوں میں
آپ کی رغبت و رضا ہوں میں
میں نے جب ساز چھیڑنا چاہا
خامشی چیخ اٹھی، صدا ہوں میں
حشر کی صبح تک تو جاگوں گا
رات کا آخری دِیا🪔 ہوں میں

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو

ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو 
یہ بھی کافی نہیں، ‌ظالم کی پشیمانی کو 
کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں‌، جو ہم نے 
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو 
شیشۂ شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گِرا
عکسِ گُلرنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو 

شغل بہتر ہے عشق بازی کا

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر، اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا

ہے ایک ہی جلوہ جو ادھر بھی ہے ادھر بھی

ہے ایک ہی جلوہ جو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے، اور آئینہ نگر بھی
ہو نُور پہ کچھ اور ہی اِک نُور کا عالم
اس رخ پہ جو چھا جائے مرا کیفِ نظر بھی
تھا حاصلِ نظارہ، فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اب گُم ہے نظر بھی

دل ٹھہرنے دے تو آنکھيں بھی جھپکتے جاويں

دِل ٹھہرنے دے تو آنکھيں بھی جھپکتے جاويں
ہم، کہ تصوير بنے بس تُجھے تکتے جاويں
چوبِ غم خوردہ کی مانِند سُلگتے رہے ہم
نہ تو بُجھ پائيں، نہ بھڑکيں، نہ دہکتے جاویں
تيری بستی ميں، تيرا نام پتہ کيا پُوچھ لیا
لوگ حيران و پريشاں ہميں تکتے جاويں

اے خدا آج اسے سب کا مقدر کر دے

اے خدا! آج اسے سب کا مقدّر کر دے
وہ محبت کہ جو انساں کو پیمبر کر دے
سانحے وہ تھے کہ پتھرا گئیں آنکھیں میری
زخم یہ ہیں تو مِرے دل کو بھی پتھّر کر دے
صرف آنسو ہی اگر دستِ کرم دیتا ہے
میری اُجڑی ہوئی آنکھوں کو سمندر کر دے

اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

اس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی، جو یکجا گزری
آ، گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دُشمن
اک مری بات نہیں، تجھ پہ بھی کیا کیا گزری
میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مِرے ہمنفسوں پر لبِ دریا گزری

Thursday, 13 December 2012

حامی بھی نہ تھے منکر غالب بھی نہیں تھے

حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
اس بار بھی دُنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے
بیچ آئے سرِ قریۂ زر، جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے

کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں

کھوئے ہوئے اِک موسم کی یاد میں

سمائے میری آنکھوں میں خواب جیسے دن
وہ مہتاب سی راتیں، گلاب جیسے دن
وہ گنجِ شہرِ وفا میں سحاب جیسے دن
وہ دن کہ جن کا تصّور متاعِ قریہ دل
وہ دن کہ جن کی تجلّی فروغ ہر محفل
گئے وہ دن تو آندھیروں میں کھو گئی منزل

ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو

ہے تاک میں دُزدیدہ نظر، دیکھئے کیا ہو
پھر دیکھ لیا اس نے ادھر، دیکھئے کیا ہو 
دل جب سے لگایا ہے، کہیں جی نہیں لگتا
کس طرح سے ہوتی ہے بسر، دیکھئے کیا ہو
جو کہنے کی باتیں ہیں وہ سب میں نے کہی ہیں
ان کو مِرے کہنے کا اثر، دیکھئے کیا ہو

نہ آیا نامہ بر اب تک گیا تھا کہہ کے اب آیا

نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا
الٰہی کیا ستم ٹُوٹا، خدایا کیا غضب آیا
رہا مقتل میں بھی محروم، آب تیغِ قاتل سے
یہ ناکامی کہ میں دریا پہ جا کر، تشنہ لب آیا
غضب ہے جن پہ دل آئے، کہیں انجان بن کر وہ
کہاں آیا، کدھر آیا، یہ کیوں آیا، یہ کب آیا؟ 

ملے کیا کوئی اس پردہ نشیں سے

ملے کیا کوئی اُس پردہ نشیں سے
چھپائے منہ جو صورت آفریں سے
مِرے لاشے پر اُس نے مُسکرا کر
ملیں آنکھیں عدو کی آستیں سے 
اثر تک دسترس کیوں کر ہو یارب
دعا نے ہاتھ باندھے ہیں یہیں سے

دل چرا کر نظر چرائی ہے

دل چُرا کر، نظر چُرائی ہے
لُٹ گئے، لُٹ گئے، دُہائی ہے
ایک دن مل کے پھر نہیں ملتے
کس قیامت کی یہ جدائی ہے
میں یہاں ہوں وہاں ہے دل میرا
نارسائی، عجب رسائی ہے 

تا بہ مقدور انتظار کیا

تا بہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفاکار تجھ سا یار کیا
یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھیے کیا ہے کیا نہیں

ملنے لگے ہو دیر دیر، دیکھئے کیا ہے، کیا نہیں
تم تو کرو ہو صاحبی، بندے میں کچھ رہا نہیں
بُوئے گُل اور رنگِ گُل، دونوں ہیں دلکش اے نسیم
لیک بقدرِ یک نگاہ، دیکھئے تو وفا نہیں
شکوہ کروں ہوں بخت کا، اتنے غضب نہ ہو بُتاں
مجھ کو خدانخواستہ، تم سے تو کچھ گِلا نہیں

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یونہی جی سے جائیے گا
شکلِ تصویرِ بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا
سب سے مل جل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی، تو نہ پائیے گا

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

عمر بھر ہم رہے شرابی سے
دلِ پُرخُوں کی اِک گلابی سے
جی ڈہا جائے ہے سحر سے، آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

نظروں میں اس نے مجھ سے اشارات آج کی

نظروں میں اس نے مجھ سے اِشارات آج کی
کیا تھا یہ خواب کچھ نہ کھلی بات آج کی
میں نے تو بھر نظر تجھے دیکھا نہیں ابھی
رکھیو حساب میں نہ ملاقات آج کی
اک بات تلخ کہہ کے کیا زہر عشق سب
تُو نے ہماری خوب مدارات آج کی

آج دل بے قرار ہے کیا ہے

آج دل بے قرار ہے، کیا ہے
درد ہے، انتظار ہے، کیا ہے
جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے، کیا ہے
یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا سا
مژہ ہے، نوکِ خار ہے، کیا ہے

شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ

شیفتہؔ! ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
اے ستمگر! رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دَم نکل جائے گا سینے سے مِرے تیر نہ کھینچ
حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ

پابندئ وحشت میں زنجیر کے مشتاق

پابندئ وحشت میں زنجیر کے مشتاق
دیوانے ہیں اس زلفِ گِرہ گیر کے مشتاق
بے رحم نہیں جرمِ وفا قابلِ بخشش
محروم ہیں کس واسطے تعزیر کے مشتاق
رہتے تھے بہم جن سے مثالِ ورق و حرف
اب ان کی رہا کرتے ہیں تحریر کے مشتاق

شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

شب تُم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے، کہ اغیار پا گئے
پوچھا کسی پہ مرتے ہو، اور دَم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنانِ صدا گئے
پھیلی وہ بُو جو ہم میں نہاں مثلِ غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گُل کھلا گئے

کس سے بیان کیجیے حال دل تباہ کا

کس سے بیان کیجیے، حال دلِ تباہ کا
سمجھے وہی اسے جو ہو، زخمی تِری نگاہ کا
مجھ کو تِری طلب ہے یار، تجھ کو ہے چاہ غیر کی
اپنی نظر میں‌ یاں نہیں، طَور کوئی نباہ کا
دِین، دل و قرار، صبر، عشق میں‌تیرے کھو چکے
جیتے جو اب کے ہم بچے نام نہ لیں‌ گے چاہ کا

ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست

ہندو ہیں بُت پرست، مسلماں خُدا پرست
پُوجوں میں اُس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروّت کی آنکھ پھُوٹ
معدوم ہے جہان سے چشمِ حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگِ گفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست

بہہ چلا چشم سے یکبار جو اک دریا سا

بہہ چلا چشم سے یک بار جو اِک دریا سا
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے یہ لہر آئی کیا
حرفِ مطلب کو مرے سُن کے بصد ناز کہا
"ہم سمجھتے نہیں، بکتا ہے تُو سودائی کیا"
شیخ جی! ہم تو ہیں ناداں، پر اُسے آنے دو
ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا

مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا

مدرسہ، یا دَیر تھا، یا کعبہ، یا بُت خانہ تھا
ہم سبھی مہماں تھے یاں، اِک تُو ہی صاحبِ خانہ تھا 
وائے نادانی، کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا
حیف! کہتے ہیں ہُوا گُلزار، تاراجِ خزاں
آشنا اپنا بھی واں اِک سبزۂ بے گانہ تھا 

خیال شب غم سے گھبرا رہے ہیں

خیالِ شبِ غم سے گھبرا رہے ہیں
ہمیں دن کو تارے نظر آرہے ہیں
دم وعظ کیسے مزے میں ہیں واعظ
بھرے جام کوثر کے چھلکا رہے ہیں
لگا دو ذرا ہاتھ اپنی گلے میں
جنازہ لیے دل کا ہم جارہے ہیں

اسیر جسم ہوں معیاد قید لا معلوم

اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
ہے اصل میں مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستہ معلوم

ضبط اپنا شعار تھا نہ رہا

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا
دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غمگسار تھا، نہ رہا
آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ ناخوشگوار تھا، نہ رہا

Monday, 10 December 2012

خوابیدگی درد کی محرم تو نہیں ہے

خوابیدگی، درد کی محرم تو نہیں ہے
یہ شب ہے، ترا کاکُلِ پُرخم تو نہیں ہے
اِک ابر کی ٹھنڈک میں اسے بھول ہی جائیں
یادوں کی تپش، اتنی بھی مدھم تو نہیں ہے
اس عہد میں وابستگئ موسمِ گُل بھی
اب حلقۂ زنجیر سے کچھ کم تو نہیں ہے

ہم کہ منزل کا تصور نہ نظر میں رکھتے

ہم کہ منزل کا تصوّر نہ نظر میں رکھتے
یہ تو ہوتا کہ تِرا ساتھ سفر میں رکھتے
ہم اسیرانِ جنوں اپنی رہائی کے لیے
عزم پرواز کہاں جنبش پر میں رکھتے
ابرِ گِریہ سے تھی خود چاندنی افسردہ جمال
عکسِ مہتاب کو کیا روزن و در میں رکھتے

اک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا

اِک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا
جو حرفِ ابر زدہ، آنکھ میں ملال کا تھا
شکست آئینۂ جاں پہ سنگ زن رہنا
ہُنر اُسی کا تھا، جتنا بھی تھا، کمال کا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ کھل کر بھی بادباں نہ کھلے
تو اس سے کتنا تعلّق ہوا کی چال کا تھا

اسے کیا خبر کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی

اسے کیا خبر، کہ پلک پلک روش ستارہ گری رہی
اسے کیا خبر کہ تمام شب کوئی آنکھ دل سے بھری رہی
کوئی تار تار نگاہ بھی تھی صد آئینہ، اسے کیا خبر
کسی زخم زخم وجود میں بھی ادائے چارہ گری رہی
میں اسیرِ شامِ قفس رہا مگر اے ہوائے دیارِ دل
سرِ طاقِ مطلعِ آفتاب، مِری نگاہ دھری رہی

کسی کی یاد سے ہم بے نیاز ہو جائیں

کسی کی یاد سے، ہم بے نیاز ہو جائیں
مگر یہ ڈر ہے کہیں رتجگے نہ سو جائیں
فضا اُداس، ستارے اُداس، رات اُداس
یہ زندگی ہے تو ہم بھی اُداس ہو جائیں
وہ سیلِ تند سے بچ کر نکل تو آئے ہیں
یہ خوف ہے نہ کنارے کہیں ڈبو جائیں

سیل گریہ ہے کوئی جو رگ جاں کھینچتا ہے

سیلِ گِریہ ہے کوئی، جو رگِ جاں کھینچتا ہے
رنگ چاہت کے وہ آنکھوں پہ کہاں کھینچتا ہے
دل، کہ ہر بار محبت سے لہو ہوتا ہے
دل کو ہر بار یہی کار زیاں کھینچتا ہے
شاید اب کے بھی مِری آنکھ میں تحریر ہے وہ
لمحۂ یاد، کوئی حرفِ گماں کھینچتا ہے

سقف سکوں نہیں تو کیا سر پہ یہ آسماں تو ہے

سقفِ سکوں نہیں تو کیا، سر پہ یہ آسماں تو ہے
سایۂ زلف اگر نہیں، دھوپ کا سائباں تو ہے
آنکھ کے طاق میں وہ ایک، جل اٹھا نجمِ نیم جاں
درد کی رات ہی سہی، کوئی سحر نشاں تو ہے
جاگ رہا ہوں رات سے لذتِ خواب کے لیے
نیند نہیں جو آنکھ میں جوئے شب رواں تو ہے

یہ حکم ہے کہ غم کشتگاں نہ رکھا جائے

یہ حکم ہے کہ غمِ کشتگاں نہ رکھا جائے
بچے ہوؤں کا بھی کوئی گماں نہ رکھا جائے
جو فیصلہ ہی ہمارے خلاف ہونا ہے
تو فیصلے میں ہمارا بیاں نہ رکھا جائے
ہمارے ہاتھ ستاروں پہ پڑنے لگتے ہیں
ہمیں اسیر شبِ درمیاں نہ رکھا جائے

کیا ضروری ہے وہ ہمرنگ نوا بھی ہو جائے

کیا ضروری ہے وہ ہمرنگِ نوا بھی ہو جائے
تم جدھر چاہو، اُدھر کو یہ ہوا بھی ہو جائے
اپنے پر نوچ رہا ہے، تِرا زندانئ دل
اسے ممکن ہے رہائی کی سزا بھی ہو جائے
دل کا دامانِ دریدہ نہیں سلِتا، تو میاں
بھاڑ میں جائے اگر چاک رِدا بھی ہو جائے

دامن چاک ہی اے ہم نفساں ایسا تھا

دامنِ چاک ہی اے ہم نفساں ایسا تھا
رات ایسی تھی کہاں، چاند کہاں ایسا تھا
ہم ہواؤں کو لیے پھرتے تھے زنجیر بکف
رات اس دشت کی وحشت پہ گماں ایسا تھا
دل کہاں بوجھ اُٹھاتا شب تنہائی کا
یہ تِرا قربِ جدائی مری جاں ایسا تھا

Sunday, 9 December 2012

تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے

تجھے بھلا کے جیوں ایسی بددعا بھی نہ دے
خُدا مجھے یہ تحمّل، یہ حوصلہ بھی نہ دے
مِرے بیانِ صفائی کے درمیاں مت بول
سُنے بغیر مجھے، اپنا فیصلہ بھی نہ دے
یہ عمر میں نے تِرے نام بے طلب لکھ دی
بھلے سے دامنِ دل میں کہیں جگہ بھی نہ دے

چاند بھی نکلا ستارے بھی برابر نکلے

چاند بھی نکلا، ستارے بھی برابر نکلے
مجھ سے اچھے تو شبِ غم کے مقدّر نکلے
شام ہوتے ہی برسنے لگے کالے بادل
صبحدم لوگ دریچوں میں کھلے سر نکلے
کل ہی جن کو تری پلکوں پہ کہیں دیکھا تھا
رات اسی طرح کے تارے مری چھت پر نکلے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے، آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اسکی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے

چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا

چاند ہی نکلا، نہ بادل ہی چھما چھم برسا 
رات دل پر غمِ دل، صورتِ شبنم برسا 
میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح 
غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسا
سرد جھونکوں نے کہی سُونی رُتوں سے کیا بات 
کِن تمناؤں کا خُوں شاخوں سے تھم تھم برسا

یونہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں

یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں
زندگی! ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں
اب زمیں پر کوئی گوتم، نہ محمؐد، نہ مسیحؑ
آسمانوں سے نئے لوگ اُتارے جائیں
وہ جو موجود نہیں اُس کی مدد چاہتے ہیں
وہ جو سُنتا ہی نہیں، اُس کو پکارے جائیں

یہ دل کسی بھی طرح شام غم گزار تو دے

یہ دِل کسی بھی طرح شامِ غم گزار تو دے
پھر اس کے بعد وہ عمروں کا انتظار تو دے
ہوائے موسمِ گُل جانفزا ہے اپنی جگہ
مگر، کوئی خبرِ یارِ خوش دیار تو دے
ہمیں بھی ضد ہے کہاں عمر بھر نبھانے کی
مگر، وہ ترکِ تعلق کا اختیار تو دے

یوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خود بھی

یُوں تجھے ڈھونڈنے نکلے کہ نہ آئے خُود بھی
وہ مسافر کہ جو منزل تھے، بجائے خُود بھی
کتنے غم تھے کہ زمانے سے چھپا رکھتے تھے
اس طرح سے کہ ہمیں یاد نہ آئے خُود بھی
ایسا ظالم ہے کہ گر ذکر میں اُسکے کوئی ظلم
ہم سے رہ جائے، تو وہ یاد دلائے خُود بھی

روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں

روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں
در سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
عشق آغاز میں، ہلکی سی خلش رکھتا ہے
بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں
پہلے پہلے ہوس اِک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں

عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے، مہتاب مت دیکھا کرو
جَستہ جَستہ پڑھ لیا کرنا، مضامینِ وفا
پر کتابِ عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اِس تماشے میں اُلٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈُوبنے والوں کو زیرِ آب مت دیکھا کرو

منزل دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے

منزلِ دوست ہے کیا کون و مکاں سے آگے؟
جس سے پوچھو وہی کہتا ہے، یہاں سے آگے
اہلِ دل کرتے رہے، اہلِ ہَوس سے بحثیں
بات بڑھتی ہی نہیں سود و زیاں سے آگے
اب جو دیکھا تو کئی آبلہ پا بیٹھے ہیں
ہم کہ پیچھے تھے بہت ہمسفراں سے آگے

تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی

تجھے ہے مشقِ ستم کا ملال، ویسے ہی
ہماری جان تھی، جاں پر وبال ویسے ہی
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سو آ گیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
ہم آ گئے ہیں تہِ دام تو نصیب اپنا
وگرنہ اُس نے تو پھینکا تھا جال ویسے ہی

Saturday, 8 December 2012

پھرے گا تو بھی یونہی کوبکو ہماری طرح

پِھرے گا تُو بھی یُونہی کُوبکُو ہماری طرح
دریدہ دامن و آشفتہ مُو، ہماری طرح
کبھی تو سنگ سے پھُوٹے گی آبجُو غم کی
کبھی تو ٹُوٹ کے روئے گا تُو ہماری طرح
پلٹ کے تجھ کو بھی آنا ہے اس طرف، لیکن
لُٹا کے قافلۂ رنگ و بُو، ہماری طرح

گل بھی گلشن میں کہاں غنچہ دہن تم جیسے

گُل بھی گُلشن میں کہاں، غُنچہ دہن، تم جیسے
کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے
یہ میرا حُسنِ نظر ہے تو دِکھا دے کوئی
قامت و گیسُو و رُخسار و دہن، تم جیسے
اب تو قاصد سے بھی ہر بات جھجک کر کہنا
لے گئے ہو میرا بے ساختہ پن تم جیسے

سو صلیبیں تھیں ہر اک حرف جنوں سے پہلے

سو صلیبیں تھیں، ہر اِک حرفِ جنُوں سے پہلے
کیا کہوں اب میں "کہُوں یا نہ کہُوں" سے پہلے
اس کو فرصت ہی نہیں دوسرے لوگوں کی طرح
جس کو نسبت تھی مرے حالِ زبُوں سے پہلے
کوئی اِسم ایسا، کہ اُس شخص کا جادو اُترے
کوئی اعجاز، مگر اُس کے فسُوں سے پہلے

نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے

نبھاتا کون ہے قول و قسم، تم جانتے تھے
یہ قُربت عارضی ہے کم سے کم تم جانتے تھے
رہا ہے کون، کس کے ساتھ انجامِ سفر تک
یہ آغازِ مسافت ہی سے ہم تم جانتے تھے
مزاجوں میں اُتر جاتی ہے تبدیلی مِری جاں
سو رہ سکتے تھے کیسے ہم بہم، تم جانتے تھے

بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا

بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا
اور یہ سانحہ، دیوار اُٹھانے سے ہوا
میری مٹّی تھی کہاں کی، تو کہاں لائی گئی
بے زمیں میں جو ہوا بھی تو ٹھکانے سے ہوا
کام جتنا تھا محبت کا، محبت نے کیا
جتنا ہونا تھا زمانے سے، زمانے سے ہوا

شہر میں جب غنچہ دہنی گل پیرہنی مقبول ہوئی

شہر میں جب غُنچہ دہنی، گُل پیرہنی، مقبول ہوئی
زُہرہ جبینوں، ماہ وشوں کو بے مہری معمول ہوئی
دلزدگاں کی بات ہی کیا ہے، دلزدگاں کی بات نہ کر
رات کا قصّہ ختم ہوا جب ان کی حکایت طول ہوئی
ہجر کی رُت سوغات بنی، ہم سوختگاں کی بات بنی
جلتے جلتے جل گئے اتنا، راکھ بھی آخر دھول ہوئی

ہم ہی ممکن ہے ترے ناز اٹھانے لگ جائیں

ہم ہی، ممکن ہے تِرے ناز اٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں
تیرے آوارہ، چلو ہم ہی رہیں گے، لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں
روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں

Wednesday, 5 December 2012

فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو

فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو
وہ کیا بہار کہ پیوند خاک ہو کے رہے
کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو
کہاں ہے اور خزانہ، بجز خزانۂ خواب
لٹانے والا لٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو

غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا

غیروں سے دادِ جور و جفا لی گئی تو کیا
گھر کو جلا کے خا ک اُڑا دی گئی تو کیا
غارتِ گرئ شہر میں شامل ہے کون کون
یہ بات اہلِ شہر پر کھل بھی گئی تو کیا
اِک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا
اِک یاد ہی تو تھی، جو بھلا دی گئی تو کیا

عذاب وحشت جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی

عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی
نئے سفر کے لئے راستہ نہ مانگے کوئی
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دُعا نہ مانگے کوئی
تمام شہر مکرّم، بس ایک مجرم مَیں
سو میرے بعد، مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟

بِکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا؟
میرے معبود! آخر کب تماشا ختم ہو گا؟
چراغِ حجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لَو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے؟
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا

وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
اِک جاگنے والا میری تقدیر میں ہوتا
اِک عالمِ خوبی ہے میسّر، مگر اے کاش
اُس گُل کا علاقہ میری جاگیر میں ہوتا
اُس آہوئے رم خوردہ و خوش چشم کی خاطر
اِک حلقۂ خوشبو میری زنجیر میں ہوتا

شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے

شہرِ گُل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی، کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو ابھی چاک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے اُفق آفاق، کہ بس
محورِ گردشِ سفاک سے خوف آتا ہے

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ

آسمانوں پر نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں
اِک نظر تُو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال
دل سنبھل جائے تو سُوئے سینہٴ احباب دیکھ

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں

Sunday, 2 December 2012

ہم اہل جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب سے اُتری تھی تب سے واقف ہیں
کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ
سپاہِ ظلم کہ ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
ہے رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شبِ غم کے سبب سے واقف ہیں

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا

گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا
جو دل میں ہے اب اسکا تذکرہ کرنا پڑے گا
نتیجہ کربلا سے مختلف ہو، یا وہی ہو
مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑے گا
وہ کیا منزل، جہاں راستے آگے نکل جائیں
سو اب پھر ایک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا