زعفرانی کلام
مہرالنساء کے ساتھ تھا کل تک اور آج میں
زیب النساء کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
تصویر میں جو دیکھ رہے ہو مجھے اداس
میں اہلیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
حمامِ عاشقی میں برہنہ نہیں ہوں میں
اک تولیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
زعفرانی کلام
مہرالنساء کے ساتھ تھا کل تک اور آج میں
زیب النساء کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
تصویر میں جو دیکھ رہے ہو مجھے اداس
میں اہلیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
حمامِ عاشقی میں برہنہ نہیں ہوں میں
اک تولیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو
زعفرانی کلام
حاضر شراب تاڑی مدک اور افیون ہے
اس پر بھی ان پہ طاری سیاسی جنون ہے
بیگم نے خوب مجھ سے جھگڑتے ہوئے کہا
"آزادئ وطن میں ہمارا بھی خون ہے"
وہ اس طرح سے مجھ پہ جھڑپتی ہے رات دن
جیسے دماغ اس کا مئی ہے کہ جون ہے
زعفرانی کلام
ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے
یومِ سسرال پہ انکار کہاں ممکن ہے
میکے تو آج نہیں کل نہیں پرسوں جانا
بیوی کے آگے یہ تکرار کہاں ممکن ہے
بیویوں والے تو جاتے ہیں عقیدت لے کر
چھوڑ کے جائیں یہ دربار کہاں ممکن ہے
زعفرانی کلام
بہت دن میں ملی ہو یہ بتاؤ حال کیسا ہے
تمہاری زندگی کے ساتھ اب جنجال کتنے ہیں
تمہاری سیٹنگ کی پائیداری کتنی قائم ہے
تمہارے دوسرے شوہر کے سر میں بال کتنے ہیں
تمہاری کوئی فرمائش کبھی رد تو نہیں کرتا
وہ ہفتے میں تمہیں سنیما کے کتنے شو دکھاتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
انؐ کی الفت کا جسے رتبہ سمجھ میں آیا
انؐ پہ مرنا ہی اسے جینا، سمجھ میں آیا
آپؐ کی آل سے جس نے بھی محبت کی ھے
پیاس کا معنی اسے دریا سمجھ میں آیا
چودھویں شب کو ہوا چاند مکمل تو مجھے
انؐ کے تلووں کا حسیں نقشہ سمجھ میں آیا
ضبط دو روز بھی ان سے نہ ہوا میرے بعد
میں جو کہتی تھی وہی ہو کے رہا میرے بعد
اچھا کھاؤ تو قسم سر پہ میرے رکھ کر ہاتھ
میرے بچوں سے کرو گے نہ دغا میرے بعد
جو مِرے واسطے چوتھی کا بنا تھا جوڑا
وہی جوڑا مِری سوتن کو چڑھا میرے بعد
زندگی کا مزا نہیں ملتا
بُت ملے تو خُدا نہیں ملتا
منزل آخری ہے قبر مِری
اب کوئی راستہ نہیں ملتا
خُوگر ظُلم ہو گیا ایسا
مجھ کو لُطف وفا نہیں ملتا
ملتفت جب سے نگاہِ ناز ہے
اور ہی کچھ عشق کا انداز ہے
گنگنایا نغمۂ دل حسن نے
سارا عالم گوش بر آواز ہے
پھیر کر منہ مسکرا کر دیکھنا
یہ ستانے کا نیا انداز ہے
جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے
لیے جو ہاتھ میں دیپک گیا ہے
سفر اب ختم ہونے کو ہے شاید
مسافر چلتے چلتے تھک گیا ہے
کریں گے فیصلہ اہلِ خرد یہ
جنوں میں کون کیا کیا بک گیا ہے
ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو
اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو
پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سُلگتا ہے بدن
اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو
اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے
اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شبیہ ابھری نظر میں ان کے جمال کی ہے
سو آج رونق ہی اور بزمِ خیال کی ہے
غموں کی شدت نے جب طبیعت نڈھال کی ہے
درودﷺ پڑھ کر شکستہ حالت بحال کی ہے
چھپے ہیں ابرِ فلک میں تارے، حیا کے مارے
کہ جوت پھیلی تِرےﷺ غبارِ نعال کی ہے
پیاس سے میری ڈر گیا پانی
ہو گیا خشک، مر گیا پانی
اب مجھے تیرنا دکھاؤ گے
اب تو سر سے گزر گیا پانی
ان سے غیرت کا درس کیا لیتے
جن کی آنکھوں کا مر گیا پانی
مِل کتنا دُھواں اُگل رہی ہے
کس کس کی حیات جل رہی ہے
لفظوں کو حنوط کرنے والو
انسان کی لاش گل رہی ہے
مصلوب ہے پیار کا فرشتہ
نفرت کی چڑیل پل رہی ہے
خوشی پر تِری ہر خوشی کو لٹا دوں
میں دنیا کی دل بستگی کو لٹا دوں
نچھاور کروں تجھ پہ چاند اور تارے
فلک کو، زمیں کو، سبھی کو لٹا دوں
اشارہ جو ہو تیرا، اے جانِ عالم
خوشی شے ہے کیا زندگی کو لٹا دوں
ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول
نہ یوں تم تھے حاضر جواب اول اول
وفادار اغیار کا اب لقب ہے
کبھی تھا یہ میرا خطاب اول اول
ازل ہی سے کوثر کی لہروں میں ڈوبے
ہوئے غرق موجِ شراب اول اول
آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا
ہشیاروں سے بڑھ کر ہے دیوانہ محبت کا
وہ رس بھری آنکھیں ہیں مے خانہ محبت کا
چلتا ہے نگاہوں سے پیمانہ محبت کا
اللہ نے بخشی ہے کیا نشو و نما اس کو
سو خِرمنِ ہستی ہے اک دانہ محبت کا
کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر
اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر
ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں
کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر
میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ
تُو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے خدا رہنمائی دے ہم کو
راہِ حق تک رسائی دے ہم کو
لذتِ پارسائی دے ہم کو
معصیت سے رہائی دے ہم کو
پھر غمِ دل سے چُور ہو جائیں
درد سے آشنائی دے ہم کو
وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں
دوسروں کے بھی والی رہے ہیں
ان کو خوشیاں میسّر نہ آئیں
درد و غم سے جو خالی رہے ہیں
دل کے پیڑوں کو ہم سینچ کر بھی
بے ثمر ڈالی ڈالی رہے ہیں
ستم دوست کا گلہ کیا ہے
سنبھل اے دل تجھے کہا کیا ہے
نگہ ناز کو نہ دو تکلیف
دل میں اب یاس کے سوا کیا ہے
جس کو مرنے کی بھی امید نہ ہو
اس کی حسرت کو پوچھنا کیا ہے
بحر دقیانوسیت
زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت
سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں
کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر
جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے
نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے
مِرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے
میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے
یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں
وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے
جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں
اپنی عظمت کو سمجھ پاتا نہیں
جستجو میں خود جو کھو جاتا نہیں
گوہر مقصود کو پاتا نہیں
کس کو دیکھیں اس بھری دنیا میں ہم
کوئی بھی تم سا نظر آتا نہیں
اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے
کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے
پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا
کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے
کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا
یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
وہ جلوہ ہے نور کبریا کا
وہ صدر ہے بزم اصطفا کا
امام ہے خیل انبیا کا
ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا
معین انصاف او وفا کا
مٹانے والا وہ جفا کا
میں اپنی ذات میں تنہا
میں اپنی ذات میں تنہا
سبھی ہیں دوست میرے پر
نہیں ہے چارہ گر کوئی
میں اپنی ذات میں تنہا
کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں
یہاں ہر سمت ویرانی
گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم
کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم
یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے
خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم
دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے
خیانت کے علمبردار ہیں ہم
کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی
کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی
آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی
اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی
اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو
بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو
رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے
لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے
لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے
بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں
گُزری تھی کہاں اپنی وہ شب پوچھ رہے ہیں
کب تک میں چھپاؤں گا زمانے کی نظر سے
اب لوگ اُداسی کا سبب پوچھ رہے ہیں
کیا تم پہ بھی گزرا تھا یونہی نزع کا عالم
ہم لوگ جو ہیں جان بہ لب پوچھ رہے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حرف کب معتبر نہیں ہوتا
مدح میں صَرف گر نہیں ہوتا
داغِ ہجراں کسے دکھاتے گر
تجھ سا خیرالبشر نہیں ہوتا
دل کو اعزاز ہے تِری آمد
ہر کسی کا یہ گھر نہیں ہوتا
سر تو نیزے پہ ان کے اچھالے گئے
وہ مگر اپنا ایماں بچا لے گئے
خوب غیروں کے ارماں نکالے گئے
اور ہم تھے کہ باتوں میں ٹالے گئے
شوق منزل جنہیں تھا وہ ٹھہرے کہاں
راہ میں ان کی کانٹے بھی ڈالے گئے
دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے
زندگی اپنے گناہوں کی سزا ہو جیسے
دل کی وادی میں تمناؤں کی رنگا رنگی
کوئی میلہ کسی بستی میں لگا ہو جیسے
ہاں پکارا ہے غم زیست نے یوں بھی ہم کو
پیار میں ڈوبی ہوئی تیری صدا ہو جیسے
یہ صحرا کی صر صر صبا تو نہیں ہے
گُھٹن ہے محبت ہوا تو نہیں ہے
میاں تخت والے سے کیوں ڈر رہے ہو
فقط آدمی ہے خُدا تو نہیں ہے
چراغ محبت مِرے دل میں جاناں
ابھی جل رہا ہے بُجھا تو نہیں ہے
کب تلک چلتا رہے گا سلسلہ کشمیر کا
اب تو کرنا ہی پڑے گا فیصلہ کشمیر کا
خونِ ناحق بہہ رہا ہے خطۂ کشمیر میں
خُون سے بدلے گا اک دن زاویہ کشمیر کا
جنگ جاری ہی رہے گی اب یہ تھمنے کو نہیں
جب تلک ہوتا نہیں ہے تصفیہ کشمیر کا
گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ
کبھی کبھی تُو ورائے حد فراق تو دیکھ
مِری طلب نہ سہی، میرا اشتیاق تو دیکھ
عبارتوں سے پرے آ، ذرا سیاق تو دیکھ
جدا ہیں جسم ہمارے، جُدا ہیں رنگ و روش
تُو ان کو چھوڑ کے رُوحوں کا التصاق تو دیکھ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
الٰہی اپنے کرم سے عنایتیں کر دے
مِرے نصیبِ سخن کی ذہانتیں کر دے
میں لفظ و معنی کے ابہام سے نکل جاؤں
سخن شناس فضا کی سماعتیں کر دے
انا کی سرکشی، بس میں مِرے نہیں آتی
مِری جبیں کے مقدر عبادتیں کر دے
رہزن ہوا جو راہنما ہاتھ کٹ گئے
بیری یہ راستہ جو ہوا ہاتھ کٹ گئے
غارت گرانِ امن و سکوں کو ملی پناہ
انصاف کی اٹھی جو صدا ہاتھ کٹ گئے
تبدیلئ نظام کی خاطر ہوئے نثار
ہاں، انقلاب آ تو گیا، ہاتھ کٹ گئے
خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو
اور اس جبر کو آزادیٔ افکار کہو
جن کے ہاتھوں میں علم اور نہ کمر میں شمشیر
وہ بھی کہتے ہیں ہمیں قافلہ سالار کہو
میں تو اک شوخ کے دامن سے کروں گا تعبیر
تم اسے شوق سے بت خانے کی دیوار کہو
مجبور کبھی کوئی قیادت نہیں ہوتی
ہوتی ہے تو پھر اس سے حکومت نہیں ہوتی
اک سجدۂ اخلاص کی فرصت نہیں ہوتی
اللہ کے بندوں سے عبادت نہیں ہوتی
اعمال پہ جو اپنے ندامت نہیں ہوتی
اس بات کا قائل ہے ہمیشہ سے زمانہ
قد بڑھانے کے لیے بونوں کی بستی میں چلو
یہ نہیں ممکن تو پھر بچوں کی بستی میں چلو
صبر کی چادر کو اوڑھے خوابگاہوں میں رہو
سچ کی دنیا چھوڑ کر وعدوں کی بستی میں چلو
جب بھی تنہائی کے ہنگاموں سے دم گھٹنے لگے
بھیڑ میں گم ہو کے انجانوں کی بستی میں چلو
فِکرِ فردا سے غافِل کسے ہوش ہے
ساری اُمّت فلسطیں پہ خاموش ہے
زُہد و تقویٰ عبادت میں مَدہوش ہے
ساری اُمّت فلسطیں پہ خاموش ہے
دَرد اِنسان سے عاری بنی مُعتکِف
حُکمِ باری، نبٌی سے ہوئی مُنحرِف
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
غمزدوں کے غم مٹانے کے لیے
مصطفیٰﷺ آئے زمانے کے لیے
آئیے چرچا نبیﷺ کا کیجیے
دولت کونین پانے کے لیے
آپؐ کی آمد ہی کافی ہے شہا
قبر کو روشن بنانے کے لیے
اچھا ہے ہم سے حال ہمارا نہ پوچھیے
کیا کیا ستم کیے ہیں گورا نہ پوچھیے
اس اشکِ غم نے دل میں لگا دی ہے کیسی آگ
مژگاں پہ ہے جو مثلِ ستارہ نہ پوچھیے
غم سہتے سہتے قوتِ گُفتار بھی گئی
کیا حال ہو گیا ہے ہمارا نہ پوچھیے
سخت وحشت میں اگر میں نے پکارا ہے مجھے
اس کا مطلب ہے ابھی میرا سہارا ہے مجھے
اس نے وحشت میں جب پکارا مجھے
خود کو دینا پڑا سہارہ مجھے
یہ زمیں گول ہے سو ممکن ہے
مل بھی سکتا وہ دوبارہ مجھے
جب پڑا الٹا پڑا پانسہ مری تدبیر کا
مِٹ نہیں سکتا کبھی لکھا کسی تقدیر کا
ہے خدا کے فضل پر موقوف پر موقوف ملنا دہر میں
منزلت،. عزت،. وجاہت،. مرتبہ توقیر کا
ہو سکے جتنا مِرے قاتل! چلا، خنجر چلا
چلتے چلتے آپ بھر جائے گا منہ شمشیر کا
وفا کے پیکروں کا جھمگٹا تھا
مگر پھر بھی جگر زخمی ہوا تھا
سرِ نوکِ سِناں اک سر سجا تھا
یہ منظر دیکھ کر دل کانپتا تھا
ہزیمت یوں اٹھانا پڑ رہی ہے
عدو کو شہر سارا جانتا تھا
کھنڈرات میں بھٹکتی صدا ہُوں تِرے بغیر
کیسے تجھے بتاؤں میں کیا ہوں ترے بغیر
کیسے ادا کروں تِری یادوں کا شکریہ
جِن کے سہارے زندہ رہا ہوں ترے بغیر
مدت سے ہجرِ یار میں جو خود ہے جل بجھا
میں راہ میں پڑا وہ دِیا 🪔 ہوں ترے بغیر