Wednesday, 30 April 2025

بری خبر ہے اسے مشتہر نہیں کرتے

 بُری خبر ہے اسے مشتہر نہیں کرتے

کسی کے عیب کو یوں بے ہُنر نہیں کرتے

مِرے بُزرگ ہیں طُول کلام کے شیدا

کہانیوں کو کبھی مختصر نہیں کرتے

مجھے بھی شوق ہے دنیا کو فتح کرنے کا

مگر پہاڑ کو عُجلت میں سر نہیں کرتے

تم جو کہہ دیتے ہو وہ حکم خدا ہوتا ہے

 تم جو کہہ دیتے ہو وہ حُکمِ خُدا ہوتا ہے

منہ سے جو میرے نکلتا ہے گِلہ ہوتا ہے

حُسن جب بھی کبھی مائل بہ وفا ہوتا ہے

عشق آمادۂ بے داد و جفا ہوتا ہے

یہ ہے دُنیا جسے چاہے بنا دے اے دوست

فطرتاً کوئی بھلا اور نہ بُرا ہوتا ہے

جس کو دیکھو احتساب زیست سے غافل ہے آج

 جس کو دیکھو احتساب زیست سے غافل ہے آج

رنج ماضی ہے نہ فکر حال و مستقبل ہے آج

مرحبا، صد مرحبا جذبِ وفا کامل ہے آج

وہ ادائے بے نیازی غمگسار دل ہے آج

اپنے حق میں مائل لطف و کرم قاتل ہے آج

ہر ادائے خشم گیں ہمت فضائے دل ہے آج

رہبر بھی کرے کیا کوئی دعویٰ مرے آگے

 رہبر بھی کرے کیا کوئی دعویٰ مرے آگے

بن جاتا ہے جنگل میں بھی رستہ مرے آگے

میں تجھ کو سمیٹوں یہی کوشش رہی ہر دم

اتنا نہ بکھر اے مِری دنیا مرے آگے

تیری ہی طرح میں نے لٹایا ہے سبھی کچھ

شرمندہ نہ کر ہاتھ نہ پھیلا مرے آگے

نقش وہ آنکھ میں اترا تھا کہ جاتا ہی نہ تھا

 نقش وہ آنکھ میں اترا تھا کہ جاتا ہی نہ تھا

میں نے اس دھوپ کو ڈھلتے کہیں دیکھا ہی نہ تھا

روح کی پیاس بجھائے نہ بجھے گی کسی ڈھنگ

مجھ کو اس دشت کی پہنائی میں اگنا ہی نہ تھا

پہلے اس گھر کی ہر اک کھڑکی کھلی رہتی تھی

یوں ملا کرتے تھے جیسے کوئی پردا ہی نہ تھا

Tuesday, 29 April 2025

مثل خسرو بنوں میں غلام آپ کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


مثلِ خسرو بنوں میں غلام آپ کا

مجھ پہ ایسا ہو لطفِ دوام آپ کا

آپ تو حق تعالیٰ کے محبوب ہیں

کس زباں سے بیاں ہو مقام آپ کا

ہے ادائے محمدﷺ، ادا آپ کی

ہے نظامِ محمدﷺ، نظام آپ کا

اشکوں سے جو نہائیں لہو سے وضو کریں

 اشکوں سے جو نہائیں لہو سے وضو کریں

قربان گاہِ فرض کی وہ گفتگو کریں

صحن چمن میں ڈھونڈ چکے حُسنِ ارتقاء

صحرا میں اب تجسسِ جوشِ نمو کریں

اس شہر بے اماں میں جو صد چاک ہو گیا

اس دامنِ حیات کو کیسے رفو کویں

نیکی اور بدی کی اس یلغار میں ہو گی کس کی مات

 ایک نظم


بدکار لوگوں کو دیکھ کر

اپنی فراخ پیشانیوں پر

شکنیں نہ لاؤ

کہ ان کے وجود سے

تابندہ ہے

گناہوں کی کائنات

مکاں سے لا مکاں ہوتے ہوئے بھی

 مکاں سے لا مکاں ہوتے ہوئے بھی

کہاں ہم ہیں کہاں ہوتے ہوئے بھی

بہت کچھ اب بھی باقی ہے زمیں پر

بہت کچھ رائیگاں ہوتے ہوئے بھی

سرے سے ہم ہی غائب ہو گئے ہیں

سبھی کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی

اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا

 اکیلی رات تھی چاروں طرف اندھیرا تھا

اور ایک پیڑ سے میرا ہی ہاتھ نکلا تھا

عجیب دھن تھی کہ بڑھتے ہی جا رہے تھے قدم

ہر اک طرف سے مجھے آندھیوں نے گھیرا تھا

نظر تو آئے تھے ہم کو بھی پاؤں اٹھتے ہوئے

پھر اس کے بعد بہت دور تک اندھیرا تھا

وفا شعار نظاروں کی بات کرتے ہیں

 وفا شعار نظاروں کی بات کرتے ہیں

خزاں میں رہ کے بہاروں کی بات کرتے ہیں

نہ آسروں، نہ سہاروں کی بات کرتے ہیں

نقیبِ وقت وقاروں کی بات کرتے ہیں

نظامِ عرش پہ جن کو یقیں نہیں وہ بھی

زمیں یہ چاند ستاروں کی بات کرتے ہیں

Monday, 28 April 2025

تمنا ہے آقا کا گھر دیکھ لیتے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تمنا ہے آقاﷺ کا گھر دیکھ لیتے

مدینے کو ہم اک نظر دیکھ لیتے

وہ طیبہ کا پر کیف دلکش نظارہ

کھجوروں کے برگ و ثمر دیکھ لیتے

الٰہی کبھی ہم بھی تیرے کرم سے

مدینے کی شام و سحر دیکھ لیتے

بے ہنر زمانے میں رائیگاں سفر اپنا

 رائیگاں سفر اپنا


بے ہنر زمانے میں

رائیگاں سفر اپنا

خوف کے بیاباں میں

سُوجھتا نہیں کچھ بھی

بد گُمانی پلتی ہے

سائباں ہی جب اپنا

لوگ جو گردش ایام سے ڈر جاتے ہیں

 لوگ جو گردش ایام سے ڈر جاتے ہیں

موت سے پہلے ہی سمجھو کہ وہ مر جاتے ہیں

یہ جو کچھ لوگ کہ طوفاں سے ڈراتے ہیں ہمیں

سرسراہٹ سے یہ پتوں کی بھی ڈر جاتے ہیں

جس کو دیکھو وہ حراساں ہے یہاں اپنوں سے

شکر ہے شام کو سب اپنے ہی گھر جاتے ہیں

گھر سے باہر نکل کے دیکھ ذرا

 گھر سے باہر نکل کے دیکھ ذرا

کون صحرا میں دے گیا ہے صدا

میں نے جب اس کی خیریت پوچھی

اس نے باتوں میں مجھ کو ٹال دیا

کتنے پنکھے لگا دئیے چھت میں

پھر بھی گرمی کا زور کم نہ ہوا

ستمگر کی ستائش ہو رہی ہے

 ستمگر کی ستائش ہو رہی ہے

ثمر ور اس کی خواہش ہو رہی ہے

نہ پھر فصلِ بہار آ جائے چمن میں

مسلسل ایسی سازش ہو رہی ہے

بباطن بِک رہی ہے جنسِ نفرت

محبت کی نمائش ہو رہی ہے

اپنی نفرت کو جو زنجیر نہیں کر سکتے

 اپنی نفرت کو جو زنجیر نہیں کر سکتے

وہ کبھی خواب کو تعبیر نہیں کر سکتے​

فیصلے وقت ہی تحریرکیا کرتا ہے

آپ چاہیں بھی تو تحریر نہیں کر سکتے​

بس یہی بات بنی اپنی تباہی کا سبب

اپنے جذبات کو تصویر نہیں کر سکتے

جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیے تھا

 جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیے تھا

انا پر آ گئی تھی سر کٹانا چاہیے تھا

ہوا ہموار دریا تھا شناور کا مقدر

ہوا وہ پار جس کو ڈوب جانا چاہیے تھا

نصیحت کا تِری یہ زاویہ کچھ اور ہوتا

میاں ناصح تجھے بھی دل لگانا چاہیے تھا

Sunday, 27 April 2025

وہی ہادی وہی مہر نبوت

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہی ہادی وہی مہر نبوت

انہیں کا نقشِ پا نورِ ہدایت

انہیں پر ختم ہے بابِ رسالت

انہیں حاصل ہے نبیوں میں سعادت

کوئی ان سا امیں پیدا نہ ہو گا

جہاں میں معتبر ان کی امانت

ہونٹوں کی مسکان سمجھ

 ہونٹوں کی مُسکان سمجھ

کچھ تو اے نادان سمجھ

جس میں تیرا پیار نہیں

اس دل کو ویران سمجھ

غُربت کی توہین نہ کر

مُفلس کو انسان سمجھ

بستی بستی بھوک اگی ہے جنگل جنگل آگ

 بستی بستی بھُوک اُگی ہے جنگل جنگل آگ

آج کا انساں کھیل رہا ہے اپنے خُوں سے پھاگ

سڑتی لاشوں کی بد بُو سے جینا ایک عذاب

شہر ہوس میں لگی ہوئی ہے ہر سُو آگ ہی آگ

اس نگری میں چھیڑ رہے ہو تم گُلاب کی بات

جس نگری کا بچہ بچہ ہے زہریلا ناگ

کیوں شکایت کروں زمانے کی

 کیوں شکایت کروں زمانے کی

سب خطائیں ہیں دل لگانے کی

میری بربادیوں کی باعث ہیں

رفعتیں میرے آشیانے کی

اک طرف میں اسیرِ رنج و بلا

اک طرف گردشیں زمانے کی

رینگتی راتوں سے ڈسواتے رہے

 رینگتی راتوں سے ڈسواتے رہے

ہم فریبِ دوستی کھاتے رہے

جاگتی آنکھوں میں خوابوں کے محل

خود بناتے اور خود ڈھاتے رہے

لاکھ ان کی آبیاری کی، مگر

بے رُتوں کے پھول مُرجھاتے رہے

Saturday, 26 April 2025

آنے والا کل جنگوں کا زمانہ ہو گا

 کل


آنے والا کل

جنگوں کا زمانہ ہو گا

بھُوک اُگے گی کھلیانوں میں

پانی بکے گا دیناروں میں

دھرتی کا سینہ چھلنی چھلنی ہو گا

آنے والا کل کتنا سنگین ہو گا

جستجو رہتی ہے اس کی وہ مگر ملتا نہیں

 جستجو رہتی ہے اس کی وہ مگر ملتا نہیں

منزلیں مل جاتی ہیں، پر ہمسفر ملتا نہیں

دشمنوں کی دشمنی میں بھی کہاں وہ رکھ رکھاؤ

دوستوں کی بھی دعاؤں میں اثر ملتا نہیں

جانے کیسے لوگ تھے وہ جن کو دنیا مل گئی

ہم کو اس دیوانگی میں اپنا گھر ملتا نہیں

عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے

 عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے

یہ شام جیسے مقابر میں ڈھلتی جاتی ہے

چہار سمت سے تیشہ زنی ہوا کی ہے

یہ شاخ سبز کہ ہر آن پھلتی جاتی ہے

پہنچ سکوں گا فصیل بلند تک کیسے

کہ میرے ہاتھ سے رسی پھسلتی جاتی ہے

بدلا ہوا سا رنگ گلستاں ہے ان دنوں

 بدلا ہوا سا رنگِ گُلستاں ہے اِن دِنوں

ہم پر بہار تو تِرا احساں ہے ان دنوں

مہکا ہے اس کے دم سے گُلستان آرزو

اپنا لہُو بہار کا عُنواں ہے ان دنوں

اپنا لیا ہے جس کو تِرے غم کے ساتھ ساتھ

وہ غم، غمِ حیات کا درماں ہے ان دنوں

Friday, 25 April 2025

دھول نہ بننا آئینوں پر بار نہ ہونا

 دھول نہ بننا آئینوں پر بار نہ ہونا

بینائی کے رستے کی دیوار نہ ہونا

شہروں کا ورثہ ہیں جلتے بجھتے منظر

رہنا لیکن ہمرنگ بازار نہ ہونا

زہر ہوائیں پروا رنگوں میں چلتی ہیں

سادہ کلیو ان کے لیے گلنار نہ ہونا

سب کے چہروں پہ کوئی چہرہ ہے

 سب کے چہروں پہ کوئی چہرہ ہے

کوئی دشمن ہے، کوئی اپنا ہے

میری آنکھوں میں خواب ہیں تیرے

تیری آنکھوں میں کون رہتا ہے

مجھ سے مجھ کو کبھی تو ملنے دے

مجھ سے میرا بھی کوئی رشتہ ہے

تم کیا گئے کہ ساری ضرورت چلی گئی

 آنکھیں گئیں سرور گیا لت چلی گئی

تم کیا گئے کہ ساری ضرورت چلی گئی

تم کو پتہ ہے تم سے بچھڑنے پہ کیا ہوا

ہم کو اکیلا چھوڑ کے ہمت چلی گئی

برسوں جسے کمانے میں دل نے لگا دئیے

آنکھوں کے راستے سے وہ دولت چلی گئی

Thursday, 24 April 2025

یہ کیسے ہو گا کہ چپ رہیں گے

 یہ کیسے ہو گا کہ چُپ رہیں گے

جو جی میں آیا وہی کہیں گے

ابھی اندھیرا جو چھا گیا ہے

چراغ یادوں کے جل اُٹھیں گے

ابھی تو جی لیں جو زندگی ہے

جو موت آئی تو مر بھی لیں گے

جس دم ہوئی محسوس جدائی ترے در کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جس دم ہوئی محسوس جدائی تِرے در کی

تصویر نظر میں اُتر آئی تِرے در کی

بھاتی ہی نہیں اور کسی شے کی نظافت

تصویر ہے یوں دل میں سمائی تِرے در کی

یعطیک فترضیٰ" سے عیاں ہے یہ حقیقت"

اللہ تِرا ہے،. یہ خدائی تِرے در کی

میری حالت پہ ذرا سا بھی نہ حیراں ہوتے

 میری حالت پہ ذرا سا بھی نہ حیراں ہوتے

آپ اگر میری طرح چاک گریباں ہوتے

جو نہیں ہوتا تِرے حسن کا پرتَو ان میں

پھر یہ گلشن مِری نظروں میں بیاباں ہوتے

ربط کی راہ میں تھا آگ کا دریا یا رب

راستے ترکِ تعلق کے تو آساں ہوتے

سب ہیں مصروف خون پینے میں

 سب ہیں مصروف خون پینے میں

کون جھانکے کسی کے سینے میں

لہریں آداب کر کے اٹھتی ہیں

کون بیٹھا ہے اس سفینے میں

میر کے شعر تک نہیں ٹکتے

وہ خلا ہے ہمارے سینے میں

عشق میں دل کا لگانا اور ہے

 عشق میں دل کا لگانا اور ہے

زندگی اپنی مٹانا اور ہے

بت پرستی تیرا شیوہ برہمن

بت کو سجدے میں گرانا اور ہے

یوں اجل کے سامنے بے بس سبھی

موت سے آنکھیں ملانا اور ہے

Wednesday, 23 April 2025

بے تاب پاس شمع کے پروانہ آ گیا

 بے تاب پاس شمع کے پروانہ آ گیا

کیا بات ہے کہ ہوش میں دیوانہ آ گیا

ساقی کی بارگاہ میں توبہ ہوئی قبول

خود ڈھونڈتا ہوا مجھے مے خانہ آ گیا

سجدوں کا میرے ناز اٹھانے کے واسطے

کعبے کے سامنے در جانانہ آ گیا

وہ منفرد ترا لہجہ نظر نہیں آیا

 وہ منفرد ترا لہجہ نظر نہیں آیا

غزل کے کوزے میں دریا نظر نہیں آیا

امیرِ شہر کے گھر نوادرات تو تھے

پرانے وقت کا کاسہ نظر نہیں آیا

منافقوں نے دکھائی تھی جو تری تصویر

تجھے جو دیکھا تو ویسا نظر نہیں آیا

ہر راستہ افسردہ ہر ایک ڈگر چپ ہے

 ہر راستہ افسردہ ہر ایک ڈگر چپ ہے

جو تم نہ آئے تو اب سارا نگر چپ ہے

ہر اشک میں ہوتی ہے مظلوم کہانی بھی

ہرگز نہ سمجھ لینا کہ دیدۂ تر چپ ہے

انداز کچھ ایسا ہے دنیا کا بتائیں کیا

الفاظ ہیں شرمندہ، احساسِ نظر چپ ہے

یا رب مجھے جو درد ملے لا دوا ملے

 یا رب! مجھے جو درد ملے لا دوا ملے

لیکن یہ آرزو ہے مجھے حوصلہ ملے

مجرم ہوں، جرمِ سخت کا اقرار ہے مجھے

اچھا ہو مجھ کو اپنے کیے کی سزا ملے

تھی جن سے چارہ سازئ وحشت کی اک امید

بد قسمتی سے وہ بھی بہت پُر جفا ملے

دید سرور کی سراپا جستجو ہو جائیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دید سرور کی سراپا جستجو ہو جائیے

دیکھتے ہی دیکھتے پھر سرخرو ہو جائیے

عشق سرکار دو عالم کا تقاضہ ہے یہی

ہر عدوئے سرورِ دیں کے عدو ہو جائیے

جب قلم قرطاس پکڑا عشق نے دی صدا

"نعت لکھنا ہے اگر تو با وضو ہو جائیے"

Tuesday, 22 April 2025

تیری یاد تیرا حصول ہے

 تیری یاد تیرا حصول ہے

تُو نہیں تو ہر شے فضول ہے

کہتی ہیں ہوائیں کہ ہر طرف

تیری رحمتوں کا نزول ہے

تیری بندگی میں جیا کروں

ہے رضا تِری جو قبول ہے

حالات کا غبار مجھے یاد رہ گیا

 حالات کا غبار مجھے یاد رہ گیا

ایک بے وفا کا پیار مجھے یاد رہ گیا

ہر نقش دلبری مِرا دھندلا کے رہ گیا

بس تیرا انتظار مجھے یاد رہ گیا

غیرو کی پالکی تھی سجی تیرے واسطے

تو ہو گیا سوار مجھے یاد رہ گیا

اس واسطے عدو کو گوارا نہیں تھا میں

 اس واسطے عدو کو گوارا نہیں تھا میں

مارا گیا تھا جنگ میں، ہارا نہیں تھا میں

مجھ سے ہی مجھ کو وقت نے تفریق کر دیا

جو تیرے سامنے تھا وہ سارا نہیں تھا میں

میں تیرے چونچلوں پہ انا کیسے بیچتا

اے زندگی! غلام تمہارا نہیں تھا میں

کبھی فراق ستمگر میں زندگانی کی

 کبھی فراق ستمگر میں زندگانی کی

کبھی حیات کی اشکوں نے ترجمانی کی

کبھی حیات پہ چھایا سکوت زخموں کا

کبھی خبر نہ ہوئی مرگِ ناگہانی کی

ہے اضطراب عجب دل کے بالا خانے میں

جھلک نگاہ میں پائی گئی ہے پانی کی

بس جبلت سے ہی لگتا ہوں درندہ جیسے

 بس جبلت سے ہی لگتا ہوں درندہ جیسے

رزق کرتا ہوں اکٹھا میں پرندہ جیسے

یوں تو میں ایک زمانے سے تھا مردہ یارم

تم کو دیکھا ہے تو لگتا ہوں میں زندہ جیسے

تیرے کوچے میں لیے آس کھڑا ہوں میں یوں

کوئی دفتر میں ہو درخواست دہندہ جیسے

محمد مصطفیٰ محبوب داور بالیقیں تم ہو

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


 محمد مصطفیٰﷺ محبوب داور بالیقیں تم ہو

لقب جس کو ملا احمدﷺ وہ امیں تم ہو

ہیں امت میں تمہاری بس ہمیں ہے ناز قسمت پر

محمدﷺ مجتبیٰ ہو رحمت اللعالمیں تم ہو

ہے دل تصدیق کرتا اور زباں اقرار کرتی ہے

تصور میں تم ہی تم، خیالِ دلنشیں تم ہو

جب ہماری زندگی کا ختم افسانہ ہوا

 جب ہماری زندگی کا ختم افسانہ ہوا

اس گھڑی صد حیف ان کا خیر سے آنا ہوا

آپ تو ہنستے رہے ہم رو کے رسوا ہو گئے

شمع تو چلتی رہی پامال پروانہ ہوا

میری بربادی کے چرچے سن کے کس کس ناز سے

پوچھتے ہیں مسکرا کر کون دیوانہ ہوا

Monday, 21 April 2025

ہجر کی رات اور کیا کرتے

 ہجر کی رات اور کیا کرتے

تیرے آنے کی بس دعا کرتے

ہم سے توہین عشق ہو نہ سکی

کس طرح عرض مدعا کرتے

انگلیاں ہو گئیں فگار اپنی

کتنے مکتوب ہم لکھا کرتے

تو وقت یہ کہاں گیا کہ وقت ہی نہیں ملا

 وقت


عجیب سی یہ بات ہے

عجب سا یہ خیال ہے

مگر یہ سوچنے لگو

تو اک اہم سوال ہے

کہ وقت ہی کہاں گیا؟

کہ عمر سب گزار دی

ایک لمحے کو جب رکا ہوں میں

 ایک لمحے کو جب رکا ہوں میں

ہمسفر نے کہا چلا ہوں میں

دیکھتا تک نہیں مجھے کوئی

روشنی میں رکھا دِیا ہوں میں

خاک چھانی کسی نے میرے لیے

اور کسی کے لیے بنا ہوں میں

حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

 حرف غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ

شہر سخن کی شمع پگھلتے ہوئے بھی دیکھ

خوشبو کے چند پھولوں کی ناکام آرزو

شہر وفا کی آگ میں جلتے ہوئے بھی دیکھ

جھلسے ہوئے خیال کے صحرا میں ڈوب جا

ذروں کی تہہ میں تشنگی جلتے ہوئے بھی دیکھ

پر ہول ہے یہ راہ گزر دیکھتے چلیے

 پُر ہول ہے یہ راہگزر دیکھتے چلیے

کٹتا بھی ہے یہ کیسے سفر دیکھتے چلیے

یہ کشمکش شمس و قمر دیکھتے چلیے

آہوں کا ذرا اپنی اثر دیکھتے چلیے

عالم میں بہت دھوم نزاکت کی مچی ہے

نازک ہے بہت ان کی کمر دیکھتے چلیے

یار دو چار سے الجھتے ہیں

 یار دو چار سے اُلجھتے ہیں

آپ تو سنسار سے الجھتے ہیں

بُغضِ صدیقؓ میں وہاں کچھ لوگ

آج بھی غار سے الجھتے ہیں

ان کی الجھن کا حل نہیں کوئی

جو مِرے یار سے الجھتے ہیں

Sunday, 20 April 2025

تصویر وفا پیکر ایثار ہیں سرکار

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


تصویر وفا پیکر ایثار ہیں سرکارﷺ

سچ کہتا ہوں کہ حق ہی کا اظہار ہیں سرکار

حالات میرے درپئے آزار ہیں سرکارﷺ

خاموش ہوں کہ میرے طرفدار ہیں سرکار

کیا ان کی مدح ہو کہ زباں اس سے ہے قاصر

رحمت کے کرم ہی کے آثار ہیں سرکارﷺ

لمحۂ فکریہ گھٹن عجب ہے دلوں میں اپنے

 لمحۂ فکریہ


گھٹن عجب ہے دلوں میں اپنے

کہ نقش سارے ہی مٹ گئے ہیں

چاہتوں کے، صحبتوں کے

تمام نغمے بکھر گئے ہیں

خلوص پیکر جو لوگ سارے تھے

ڈھے گئے ہیں

نیت ہے اگر پانے کی کیا کیا نہ ملے گا

 نیت ہے اگر پانے کی کیا کیا نہ ملے گا

بندے کو خدا وند سے روزانہ ملے گا

اس بارگہِ ناز میں دے آئیں گے چپکے

نذرانہ گزاری کو جو نذرانہ ملے گا

ہم اس کو یگانوں ہی کی فہرست میں لکھیں گے

بالفرض کہیں کوئی جو بے گانہ ملے گا

گاؤں میں جھونپڑی سلامت ہے

 گاؤں میں جھونپڑی سلامت ہے

سلطنت ہے مِری ریاست ہے

کوئی میٹھا سا درد ہے دنیا

کوئی دلچسپ سی صعوبت ہے

میں نے خاموشیاں سُنی ہیں تِری

مجھ سے مت پوچھ کیا سماعت ہے

یوں وفا آزمائی جاتی ہے

 یوں وفا آزمائی جاتی ہے

دل کی رگ رگ دکھائی جاتی ہے

اپنی صورت کے آئنے میں مجھے

میری صورت دکھائی جاتی ہے

ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے

 نئی دنیا بنائی جاتی ہے

برقِ ستم سے ہیں گل و گلزار اشکبار

 برقِ ستم سے ہیں گُل و گُلزار، اشکبار

خاکِ غَزہ ہے زخمی و لاچار اشکبار

اس درد سے تڑپتا ہے سارا جہانِ حق

ہے رنج و غم سے ہر دلِ خوددار اشکبار

لپٹی ہے خاک و خوں میں فلسطیں کی آبرو

ہم، تک رہے ہیں بے بس و ناچار، اشکبار

Saturday, 19 April 2025

کب کوئی در شاہ پہ تدبیر سے پہنچا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کب کوئی درِ شاہ پہ تدبیر سے پہنچا

پہنچا تو فقط خوبئ تقدیر سے پہنچا

ہر گوشۂ آفاق میں پیغامِ صداقت

اے افصحِ عالم! تِری تقریر سے پہنچا

اس پر بھی تِرا فیضِ اتم جھوم کے برسا

تشنہ جو تِری بزم میں تاخیر سے پہنچا

پل خوشی کے تو کبھی آنکھ میں پانی دے گا

 پل خوشی کے تو کبھی آنکھ میں پانی دے گا

وقت ہر روز نئی ایک کہانی دے گا

دل مِرے چھیڑ نہ تو پھر وہ پرانے قصے

ذکر ماضی مجھے بس اشک فشانی دے گا

پیڑ کیکر کے بھی آئیں گے کہیں راہوں میں

ہر جگہ تو وہ نہیں رات کی رانی دے گا

میں اپنے جرم کا جب اعتراف کرتا ہوں

 میں اپنے جرم کا جب اعتراف کرتا ہوں 

پھر اس کا فیصلہ اپنے خلاف کرتا ہوں

میں پہلے دیتا ہوں ترتیب حلقۂ احباب

پھر اپنے لوگوں کو اپنے خلاف کرتا ہوں 

میں کیسے مان لوں ہر بات، آسماں تیری 

زمین زاد ہوں، سو اختلاف کرتا ہوں 

بربادی سے اس شہر کو کیا یار بچائیں

 بربادی سے اُس شہر کو کیا یار بچائیں

یاروں سے جہاں یار ہی دستار بچائیں

یاروں کی عنایت سے ہوں میں دار پہ لیکن

یہ دار ہے منظور جو اغیار بچائیں

ہونا ہے گرفتار کسی روز تو دل کو

کیوں خود کو محبت سے بھی اک بار بچائیں

نہ جیت ویت کے معنی نہ ہار وار کا دکھ

 نہ جیت وِیت کے معنی نہ ہار وار کا دکھ

کہ میرے دل میں روندی گئی بہار کا دکھ

نہ بات وَات ضروری ، نہ دِید وِید کی بات

جو دِل اداس ہے اِس کو ہے انتظار کا دکھ

دغا وَغا کوبھی چھوڑا ، یہ جھوٹ موٹ بھی معاف

مجھے تو دے رہا آزار اعتبار کا دکھ

ہندو ہے کون شکل مسلماں میں کون ہے

 ہندو ہے کون شکل مسلماں میں کون ہے

حیواں ہے کون صورت انساں میں کون ہے

صحرا میں کون کوہ و بیاباں میں کون ہے

گلشن میں کون باغ گلستاں میں کون ہے

صورت جدا ہے سب کی مگر ایک ہی وجود

گل میں ہے کون خار مغیلاں میں کون ہے

Friday, 18 April 2025

دل میں اگر نہیں ہے محبت رسول کی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل میں اگر نہیں ہے محبت رسولؐ کی

کیسے کوئی کہے کہ ہوں امت رسولؐ کی

گر چاہتے ہیں آپ کہ راضی رہے خدا

کیجیے جناب دل سے اطاعت رسولؐ کی

اسلام کی مخالفت بہتوں نے کی ضرور

مانی مگر عدو نے بھی عظمت رسولؐ کی

عشق محتاط رہا وہ بھی اس انداز کے ساتھ

 عشق محتاط رہا وہ بھی اس انداز کے ساتھ

سانس تک اس نے نہیں لی کسی ہمراز کے ساتھ

دشمنوں میں بھی رہوں میں تو قباحت کیا ہے

دوست بھی ملتے ہیں مجھ سے اسی انداز کے ساتھ

اس کے تاروں پہ رکھیں انگلیاں تو نے شاید

کیف کو ایسا نہیں ربط کسی ساز کے ساتھ

اب اس کے سوا اور نہ کچھ کام کریں گے

 اب اس کے سوا اور نہ کچھ کام کریں گے

جب عشق نہ کر پائیں گے آرام کریں گے

ہم بزم سے اٹھ کر تِری یہ سوچ رہے ہیں

دن کیسے گزاریں گے کہاں شام کریں گے

دل کر دیا ان ماہ جبینوں کے حوالے

اب جاں بھی انہی لوگوں کو انعام کریں گے

گہرے سمندروں کی تہوں سے اٹھا کروں

 گہرے سمندروں کی تہوں سے اٹھا کروں

ہوں سیل، ساحلوں پہ جواہر بکھیر دوں

طوفان ان گنت رہے بحرِ حیات میں

تحلیل پانیوں میں ہوا جسم کا ستوں

اک دن برس کے ابر یہ قدغن لگا گیا

اپنے بدن کی آگ میں ہر شب جلا کروں

بڑھ کر امکانات تحسیں سے ان کی ہر ادا

 بڑھ کر امکانات تحسیں سے ان کی ہر ادا

کون کر سکتا ہے حق نعت پیغمبرﷺ ادا

اللہ اللہ مدحت خیر الوریٰ کے باب میں

خود بخود ہوتا ہے مضمون دل مضطر ادا

یاس آغشتہ بشر کی جان میں جان آ گئی

دیکھ کر خلق محمدﷺ کی رواں پرور ادا

روگ پلتا رہا کام چلتا رہا

 روگ پلتا رہا


بات کُچھ بھی نہ تھی

ہاں مگر اک گُزارش کا آغاز تھا

وہ گُزارش جو

جو سوکھے لبوں کی ہوس

چیرتی اک فسوں کے مقابل کھڑی ہوگئی

لفظ در لفظ ایسی شکن آپڑی

چلو دیوانو ملنے چلیں جن کے امتی ہیں ہم

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


چلو دیوانو ملنے چلیں جن کے امتی ہیں ہم

حال غم ان کو سنائیں جن کے امتی ہیں ہم

میں ہوں خادم آپ کا اور آپ میرے آقاﷺ

دل کا حال انہیں بتائیں جن کے امتی ہیں ہم

شان عظمت محبوب کی وہ بزم محشر دکھائیں گۓ

بخشوا دے گئے خطائیں جن کے امتی ہیں ہم

Thursday, 17 April 2025

وہ اجنبی تھا مگر تھا وہ آشنا کی طرح

 وہ اجنبی تھا مگر تھا وہ آشنا کی طرح

مِرے وہ دل میں رہے گا مِری دعا کی طرح

وہ نا خدا تو نہیں تھا مگر سفینے کو

بچا بچا کے وہ لایا تھا ناخدا کی طرح

زباں سے اس کی جو نکلا وہ بن گیا مرہم

کلام اس کا حقیقت میں تھا دوا کی طرح

یوں پلٹتی ہے ہر ایک دعا باب اثر سے

 یوں پلٹتی ہے ہر ایک دعا باب اثر سے

جیسے کوئی ناکام چلا آئے سفر سے

ہو جائے عیاں تم پہ بھی دنیا کی حقیقت

دنیا کو اگر دیکھ لو تم میری نظر سے

یہ بات الگ ہے کہ نہیں فُرصتِ پُرسش

واقف تو یہ دنیا ہے میرے دردِ جگر سے

کبھی دوستی کی باتیں کبھی دشمنی کی باتیں

 کبھی دوستی کی باتیں کبھی دشمنی کی باتیں

وہی زندگی ہے یارو! وہی زندگی کی باتیں

وہی رہبروں کے جمگھٹ وہی بھیڑ رہزنوں کی

وہی کارواں ہیں غم کے، وہی گمرہی کی باتیں

کبھی چھیڑ اے مغنی! کوئی کیف زا ترانہ

میں ازل سے سن رہا ہوں غمِ عاشقی کی باتیں

جب ناؤ بھنور میں پھنستی ہے اور دور کنارا ہوتا ہے

 جب ناؤ بھنور میں پھنستی ہے اور دور کنارا ہوتا ہے

ایسے میں ہم مجبوروں کو بس تیرا سہارا ہوتا ہے

اک بار ذرا تم آنے کی زحمت تو کرو، دیکھو تو سہی

فُرقت کی اندھیری راتوں میں کیا حال ہمارا ہوتا ہے

اک درد سا دل میں ہوتا ہے، اک ٹیس جگر میں اُٹھتی ہے

جب یاد تمہاری آتی ہے، جب ذِکر تمہارا ہوتا ہے

میں صدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

حمد

(چوتھا مسودہ)

میں صِدق دل سے تیری ذات کے ہونے کا قائل ہوں

مِرا ایمان ہے تیرے فرشتوں پر، رسولوں پر

تِری اقلیم کے سارے اصولوں پر

ہوا میں گیت گاتے خوشنما رنگیں پرندوں پر

بھنور کی بات سن کر کھلکھلاتے ہنستے پھولوں پر

دل لگا کر ہاں درودوں ،،سے سجایا کاغذ

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


دل لگا کر ہاں، درودوں ،،سے سجایا کاغذ

سوئے جنت مجھے لے جائے گا ایسا کاغذ

شاہ کربل نے جو لکھ دی تھی غلامی کی سند

قبرِ فاروق میں رکھنا، وہ سنہرا کاغذ

شاہ کونینﷺ کی توصیف رقم کرنے کو

قلب کو میں نے بنا ڈالا ہے کورا کاغذ

Wednesday, 16 April 2025

نہ تو آغاز نہ انجام پہ رونا آیا

 نہ تو آغاز نہ انجام پہ رونا آیا

اپنی دقت کی ہر اک شام پہ رونا آیا

اہل محفل کو ہوئی شمع کے جلنے کی خوشی

مجھ کو پروانے کے انجام پہ رونا آیا

دل سے ابھرا تو نگاہوں کے دریچے سے گرا

اشک بنتے ہوئے ہر جام پہ رونا آیا

سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے

 سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے

بڑی طویل کہانی تھی مختصر کی ہے

تو مجھ کو خاک سمجھتا ہے خاک سمجھا کر

مگر یہ دیکھ کہ یہ خاک کس کے در کی ہے

وہ جس کی چھاؤں میں آنے سے جسم جل جائے

تِری مثال تو اے دوست! اس شجر کی ہے

جو بے زباں ہیں ہمیشہ ستائے جاتے ہیں

 جو بے زباں ہیں ہمیشہ ستائے جاتے ہیں

اسی لیے تو ستم دل پہ ڈھائے جاتے ہیں

کرو نہ فکر کبھی داغِ دل 💗 کا اے لوگو

چراغ ہجر کے یونہی جلائے جاتے ہیں

انہیں بھی ایک نظر دیکھ لے مِرے ساقی

کہ تیری بزم میں پیاسے بھی پائے جاتے ہیں

وہ بھی اداس اداس ہیں ہم بھی اداس اداس

 وہ بھی اداس اداس ہیں ہم بھی اداس اداس

یعنی نہ ان کے پاس خوشی ہے نہ میرے پاس

بجھتی نہیں بجھائے کسی طرح دل کی پیاس

دل ہے کہ چھوڑتا نہیں کم بخت پھر بھی آس

مانا بدل کے رکھ دی بشر نے یہ کائنات

ہائے، مگر حیات کے تن پر وہی لباس

پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم بیٹی تو چاند سے اترتی ہے

 بیٹی


پوچھتے کیا ہو جانتے ہو تم

بیٹی تو چاند سے اترتی ہے

ساری خنکی سمیٹ لاتی ہے

نرمی و خوش روی کے جھونکوں سے

حجر بھی موم ہوتا جاتا ہے

کوئی پازیب سے چھنکتی ہے

گالی گلوچ پیار کا کیسا صلہ ہے یہ

 گالی گلوچ پیار کا کیسا صلہ ہے یہ؟

بدلے وفاؤں کے جفا، کیسا صلہ ہے یہ؟

طعنے، فریب، گھڑکیاں، دُشنام و بے رُخی

کہنا مگر اسے ادا، کیسا صلہ ہے یہ؟

نظریں چُرا کے دیکھنا، شیخی بھگارنا

کہتے ہو تم اسے وفا، کیسا صلہ ہے یہ؟

Tuesday, 15 April 2025

کون ہے آشنائے مقام نبی

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کون ہے آشنائے مقامِ نبیﷺ

ہے سرِ عرش و فرش احترام نبی

اس کو حاصل سعادت ہے ایمان کی

قلب پر ثبت ہے جس کے نامِ نبی

کم نصیبوں کو کیوں اس کا شکوہ ہے

جب ودیعت ہو لطفِ دوامِ نبیﷺ

ہوا اک دن میں ہم سے غیر اچھا

 ہوا اک دن میں ہم سے غیر اچھا

پڑا در پر کسی کا پیر اچھا

کہا ہے میں نے جو دیکھا سنا ہے

جو تم سمجھو بُرا تو خیر اچھا

محبت ہم سے منہ دیکھے کی یارو

ہو دل کھوٹا تو منہ کا بیر اچھا

سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں

 سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں

گل جتنے ہیں اس باغ میں مرجھائے ہوئے ہیں

شرمندہ ہوں میں اپنی دعاؤں کے اثر سے

وہ آج پریشان ہیں گھبرائے ہوئے ہیں

خودداریٔ گیسو کا ہے اس رخ پہ یہ عالم

جھکنا جو پڑا ان کو تو بل کھائے ہوئے ہیں

تیرا ہی ذکر تیرا ہی چرچا ہوا کرے

 تیرا ہی ذکر تیرا ہی چرچا ہوا کرے

ہوتا ہے حشر برپا تو برپا ہوا کرے

ہاں ناز اور نیاز اسے بھی پسند ہیں

کہہ دیجیے جبیں سے ادب سے جھکا کرے

موسیٰ نہیں جو تاب تجلی کی لا سکوں

پردہ اٹھے تو یوں نہ کرم کا اٹھا کرے

Monday, 14 April 2025

وہی زمانہ وہی ماہ و سال اوڑھے ہیں

 وہی زمانہ وہی ماہ و سال اوڑھے ہیں

بہت دنوں سے تمہارا خیال اوڑھے ہیں

شعاع مہر نے مجھ سے کہا بہ وقت شام

عروج والے یہاں سب زوال اوڑھے ہیں

ادب سے بیٹھیے آ کر کے ہم فقیروں میں

یہاں کے ٹاٹ نشیں سب کمال اوڑھے ہیں

محبت مر نہیں سکتی محبت غیر فانی ہے

 محبت مر نہیں سکتی


وہی بے تابیاں دل کی

وہی پھرتا ہوا دریا

وہی کچا گھڑا ہے منتظر سچ کے مسافر کا

وہی شب کی سیہ چادر

چھپی ہیں سازشیں جس میں عزیزوں کی

پرانے دوستوں کی ہم جلیسوں کی

یا رحمت اللعالمین خیر الانام

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یا رحمت اللعالمین، خیر الانامﷺ

آپﷺ لائے آخری حق کا پیام

آپؐ کی مدح لکھوں میں کیا مجال

خود خدا بھیجے ہیں درود و سلامﷺ

آپﷺ ہیں دونوں جہاں کے بادشاہ

خاک کے حجرے میں کرتے تھے قیام

حاکم وقت کے اقبال سے کیا کیا نہ ہوا

 حاکم وقت کے اقبال سے کیا کیا نہ ہوا

دل کے زخموں کا اگر کوئی مداوا نہ ہوا

سر پٹکتے ہی پھرے راہ کی تنہائی میں

اہلِ فن کے لیے دروازہ کوئی وا نہ ہوا

ظلمتِ شب میں کوئی راہبری کیا کرتا

ایک تارا بھی سرِ عرش ہمارا نہ ہوا

بات تو جب ہے کہانی پاؤں کے چھالے کہیں

 بات تو جب ہے کہانی پاؤں کے چھالے کہیں

حال سارا منہ زبانی پاؤں کے چھالے کہیں

چل مگر اگلے سفر کی ایک یہ بھی شرط ہے

ہر قدم کی جاں فشانی پاؤں کے چھالے کہیں

میں سناؤں گا ٹھہر کر داستاں تفصیل سے

تب تلک کربِ نہانی پاؤں کے چھالے کہیں

Sunday, 13 April 2025

کھل اٹھا تھا جو گلشن باغباں کی کاوش سے

 کھل اٹھا تھا جو گلشن باغباں کی کاوش سے

وہ اجڑ گیا آخر، موسموں کی سازش سے

کوہسار و صحرا ہوں، کھیت ہوں کہ ندیاں ہوں

مستفیض ہوتے ہیں ابر کی تراوش سے

جو خوشی سے آئے گا، جائے گا وہ افسردہ

فائدہ ہی کیا آخر زخم کی نمائش سے

اک گھڑی جذبۂ نفرت کے سوا چاہتی ہے

 اک گھڑی جذبۂ نفرت کے سوا چاہتی ہے

زندگی تجھ سے محبت کی دعا چاہتی ہے

کیا کروں دوست تو اتنے بھی نہیں ہیں میرے

روز یہ روح کوئی زخم نیا چاہتی ہے

کیا عجب طور سے کرتی ہے شکست اپنی قبول

اب یہ دنیا کوئی ہنگامہ بپا چاہتی ہے

عدل سے منہ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے

 عدل سے منہ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے

سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے

تشنگی کی آنکھ میں بے سمت تیور دیکھ کر

کتنے دریا دل سمندر بھی ندی ہونے لگے

حسرتیں پلنے لگی ہیں پھر نبوت کے لیے

کچھ دنوں میں کیا خبر پیغمبری ہونے لگے 

Saturday, 12 April 2025

نیاز مند نبی ہوں نبی کا نوکر ہوں

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نیاز مندِ نبیﷺ ہوں، نبیﷺ کا نوکر ہوں

نبی کی بیٹیوں، بیٹوں سبھی کا نوکر ہوں

حسنؑ، حسینؑ، امامہؑ، علیؑ کا نوکر ہوں

میں ان کے کام کے ہر آدمی کا نوکر ہوں


یہ ایک شاعرِ محکوم کا قصیدہ ہے

بناتِ سیدِ مخدومﷺ کا قصیدہ ہے

عاشق کی آہ و زاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو

  زعفرانی کلام ٹیکس


عاشق کی آہ و زاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو

سب مہ وشوں پہ ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو

گر زلف تا کمر ہو تو بالوں پہ ٹیکس ہو

ہو اگر سرخ سرخ گال تو گالوں پہ ٹیکس ہو

ہو قاتلانہ چال تو پیسے ادا کرو

ورنہ جہاں پڑے ہو وہیں پر پڑے رہو

Friday, 11 April 2025

مہرالنساء کے ساتھ تھا کل تک اور آج میں

  زعفرانی کلام


مہرالنساء کے ساتھ تھا کل تک اور آج میں

زیب النساء کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

تصویر میں جو دیکھ رہے ہو مجھے اداس

میں اہلیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

حمامِ عاشقی میں برہنہ نہیں ہوں میں

اک تولیہ کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو

حاضر شراب تاڑی مدک اور افیون ہے

 زعفرانی کلام


حاضر شراب تاڑی مدک اور افیون ہے

اس پر بھی ان پہ طاری سیاسی جنون ہے

بیگم نے خوب مجھ سے جھگڑتے ہوئے کہا

"آزادئ وطن میں ہمارا بھی خون ہے"

وہ اس طرح سے مجھ پہ جھڑپتی ہے رات دن

جیسے دماغ اس کا مئی ہے کہ جون ہے

ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے

  زعفرانی کلام


 ہو سمندر کے اگر پار کہاں ممکن ہے

یومِ سسرال پہ انکار کہاں ممکن ہے

میکے تو آج نہیں کل نہیں پرسوں جانا

بیوی کے آگے یہ تکرار کہاں ممکن ہے

بیویوں والے تو جاتے ہیں عقیدت لے کر

چھوڑ کے جائیں یہ دربار کہاں ممکن ہے

بہت دن میں ملی ہو یہ بتاؤ حال کیسا ہے

 زعفرانی کلام


بہت دن میں ملی ہو یہ بتاؤ حال کیسا ہے

تمہاری زندگی کے ساتھ اب جنجال کتنے ہیں

تمہاری سیٹنگ کی پائیداری کتنی قائم ہے

تمہارے دوسرے شوہر کے سر میں بال کتنے ہیں

تمہاری کوئی فرمائش کبھی رد تو نہیں کرتا

وہ ہفتے میں تمہیں سنیما کے کتنے شو دکھاتا ہے

Thursday, 10 April 2025

ان کی الفت کا جسے رتبہ سمجھ میں آیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


انؐ کی الفت کا جسے رتبہ سمجھ میں آیا

انؐ پہ مرنا ہی اسے جینا، سمجھ میں آیا

آپؐ کی آل سے جس نے بھی محبت کی ھے

پیاس کا معنی اسے دریا سمجھ میں آیا

چودھویں شب کو ہوا چاند مکمل تو مجھے

انؐ کے تلووں کا حسیں نقشہ سمجھ میں آیا

ضبط دو روز بھی ان سے نہ ہوا میرے بعد

 ضبط دو روز بھی ان سے نہ ہوا میرے بعد

میں جو کہتی تھی وہی ہو کے رہا میرے بعد

اچھا کھاؤ تو قسم سر پہ میرے رکھ کر ہاتھ

میرے بچوں سے کرو گے نہ دغا میرے بعد

جو مِرے واسطے چوتھی کا بنا تھا جوڑا

وہی جوڑا مِری سوتن کو چڑھا میرے بعد

زندگی کا مزا نہیں ملتا

 زندگی کا مزا نہیں ملتا

بُت ملے تو خُدا نہیں ملتا

منزل آخری ہے قبر مِری

اب کوئی راستہ نہیں ملتا

خُوگر ظُلم ہو گیا ایسا

مجھ کو لُطف وفا نہیں ملتا

ملتفت جب سے نگاہ ناز ہے

 ملتفت جب سے نگاہِ ناز ہے

اور ہی کچھ عشق کا انداز ہے

گنگنایا نغمۂ دل حسن نے

سارا عالم گوش بر آواز ہے

پھیر کر منہ مسکرا کر دیکھنا

یہ ستانے کا نیا انداز ہے

جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے

 جلا کر اپنا گھر بالک گیا ہے

لیے جو ہاتھ میں دیپک گیا ہے

سفر اب ختم ہونے کو ہے شاید

مسافر چلتے چلتے تھک گیا ہے

کریں گے فیصلہ اہلِ خرد یہ

جنوں میں کون کیا کیا بک گیا ہے

ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو

 ساحلوں کا بھی نہ احساں تھا گوارا مجھ کو

اتنا دریا کے تلاطم نے سنوارا مجھ کو

پیاس ایسی ہے کہ اندر سے سُلگتا ہے بدن

اور پانی کے سوا کچھ نہیں چارا مجھ کو

اب تو دامن کو لپکتے ہیں لہو کے شعلے

اور پکارے ہے کہیں خون کا دھارا مجھ کو

Wednesday, 9 April 2025

شبیہ ابھری نظر میں ان کے جمال کی ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


شبیہ ابھری نظر میں ان کے جمال کی ہے

سو آج رونق ہی اور بزمِ خیال کی ہے

غموں کی شدت نے جب طبیعت نڈھال کی ہے

درودﷺ پڑھ کر شکستہ حالت بحال کی ہے

چھپے ہیں ابرِ فلک میں تارے، حیا کے مارے

کہ جوت پھیلی تِرےﷺ غبارِ نعال کی ہے

پیاس سے میری ڈر گیا پانی

 پیاس سے میری ڈر گیا پانی

ہو گیا خشک، مر گیا پانی

اب مجھے تیرنا دکھاؤ گے

اب تو سر سے گزر گیا پانی

ان سے غیرت کا درس کیا لیتے

جن کی آنکھوں کا مر گیا پانی

مل کتنا دھواں اگل رہی ہے

 مِل کتنا دُھواں اُگل رہی ہے

کس کس کی حیات جل رہی ہے

لفظوں کو حنوط کرنے والو

انسان کی لاش گل رہی ہے

مصلوب ہے پیار کا فرشتہ

نفرت کی چڑیل پل رہی ہے

خوشی پر تری ہر خوشی کو لٹا دوں

 خوشی پر تِری ہر خوشی کو لٹا دوں

میں دنیا کی دل بستگی کو لٹا دوں

نچھاور کروں تجھ پہ چاند اور تارے

فلک کو، زمیں کو، سبھی کو لٹا دوں

اشارہ جو ہو تیرا، اے جانِ عالم

خوشی شے ہے کیا زندگی کو لٹا دوں

ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول

 ہر اک بات میں تھا حجاب اول اول

نہ یوں تم تھے حاضر جواب اول اول

وفادار اغیار کا اب لقب ہے

کبھی تھا یہ میرا خطاب اول اول

ازل ہی سے کوثر کی لہروں میں ڈوبے

ہوئے غرق موجِ شراب اول اول

آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا

 آباد اسی سے ہے ویرانہ محبت کا

ہشیاروں سے بڑھ کر ہے دیوانہ محبت کا

وہ رس بھری آنکھیں ہیں مے خانہ محبت کا

چلتا ہے نگاہوں سے پیمانہ محبت کا

اللہ نے بخشی ہے کیا نشو و نما اس کو

سو خِرمنِ ہستی ہے اک دانہ محبت کا

کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

 کہوں دنیا میں اب میں کس سے جا کر

اگر کرنا ہے کچھ تھوڑی وفا کر

ہمارے بخت میں آنسو نہیں ہیں

کوئی حاصل نہیں دریا بہا کر

میں خالی چشم لوٹ آیا دوبارہ

تُو دریا ہے تو دو آنسو عطا کر

Tuesday, 8 April 2025

اے خدا رہنمائی دے ہم کو

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


اے خدا رہنمائی دے ہم کو

راہِ حق تک رسائی دے ہم کو

لذتِ پارسائی دے ہم کو

معصیت سے رہائی دے ہم کو

پھر غمِ دل سے چُور ہو جائیں

درد سے آشنائی دے ہم کو

وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں

 وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں

دوسروں کے بھی والی رہے ہیں

ان کو خوشیاں میسّر نہ آئیں

درد و غم سے جو خالی رہے ہیں

دل کے پیڑوں کو ہم سینچ کر بھی

بے ثمر ڈالی ڈالی رہے ہیں

ستم دوست کا گلہ کیا ہے

 ستم دوست کا گلہ کیا ہے

سنبھل اے دل تجھے کہا کیا ہے

نگہ ناز کو نہ دو تکلیف

دل میں اب یاس کے سوا کیا ہے

جس کو مرنے کی بھی امید نہ ہو

اس کی حسرت کو پوچھنا کیا ہے

Monday, 7 April 2025

بحر دقیانوسیت زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت

 بحر دقیانوسیت


زبانی جنگ کی کیسی ہے فطرت

سیانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

مُڑے گی جانے کن اندھی گلی میں

کہانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے


شباب آیا ہے افواہوں پہ یکسر

جوانی، لمبی ہوتی جا رہی ہے

نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

 نئی دنیا ترا چرچا بہت ہے

مِرا بیٹا بھی آوارہ بہت ہے

میں شاید پاگلوں سا لگ رہا ہوں

وہ مجھ کو دیکھ کر ہنستا بہت ہے

یہ بکھری پتیاں جس پھول کی ہیں

وہ اپنی شاخ پر مہکا بہت ہے

جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں

 جو بشر طوفاں سے ٹکراتا نہیں

اپنی عظمت کو سمجھ پاتا نہیں

جستجو میں خود جو کھو جاتا نہیں

گوہر مقصود کو پاتا نہیں

کس کو دیکھیں اس بھری دنیا میں ہم

کوئی بھی تم سا نظر آتا نہیں

اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے

 اک جبر مستقل ہے مسلسل عذاب ہے

کہنے کو زندگی پہ غضب کا شباب ہے

پوچھا کسی نے حال تو دیوانہ رو دیا

کتنا حسین، کتنا مکمل جواب ہے

کیوں تلخیٔ حیات کا احساس ہو چلا

یارو ابھی تو رقص میں جام شراب ہے

Sunday, 6 April 2025

وہ جلوہ ہے نور کبریا کا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


وہ جلوہ ہے نور کبریا کا

وہ صدر ہے بزم اصطفا کا

امام ہے خیل انبیا کا

ہے پیشوا مسلک ہدیٰ کا

معین انصاف او وفا کا

مٹانے والا وہ جفا کا

میں اپنی ذات میں تنہا

 میں اپنی ذات میں تنہا


میں اپنی ذات میں تنہا

سبھی ہیں دوست میرے پر

نہیں ہے چارہ گر کوئی

میں اپنی ذات میں تنہا

کسے دیکھوں، کسے ڈھونڈوں

یہاں ہر سمت ویرانی

گماں اس کا ہے نیکوکار ہیں ہم

 گماں اس کا ہے، نیکوکار ہیں ہم 

کہاں! اب صاحب کردار ہیں ہم

یہی سچ ہے کہ ان ملی بتوں سے 

خدا جانے، بہت بیزار ہیں ہم

دیانت کا تقاضا اور کچھ ہے

خیانت کے علمبردار ہیں ہم

کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی

 کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی

کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی

آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی

اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی

اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو

بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو

رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

 رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے

پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے

لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں

یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے

لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی

آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے

بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں

 بیتے ہوئے لمحات طرب پوچھ رہے ہیں

گُزری تھی کہاں اپنی وہ شب پوچھ رہے ہیں

کب تک میں چھپاؤں گا زمانے کی نظر سے

اب لوگ اُداسی کا سبب پوچھ رہے ہیں

کیا تم پہ بھی گزرا تھا یونہی نزع کا عالم

ہم لوگ جو ہیں جان بہ لب پوچھ رہے ہیں

Saturday, 5 April 2025

حرف کب معتبر نہیں ہوتا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حرف کب معتبر نہیں ہوتا

مدح میں صَرف گر نہیں ہوتا

داغِ ہجراں کسے دکھاتے گر

تجھ سا خیرالبشر نہیں ہوتا

دل کو اعزاز ہے تِری آمد

ہر کسی کا یہ گھر نہیں ہوتا

سر تو نیزے پہ ان کے اچھالے گئے

 سر تو نیزے پہ ان کے اچھالے گئے 

وہ مگر اپنا ایماں بچا لے گئے 

خوب غیروں کے ارماں نکالے گئے 

اور ہم تھے کہ باتوں میں ٹالے گئے 

شوق منزل جنہیں تھا وہ ٹھہرے کہاں 

راہ میں ان کی کانٹے بھی ڈالے گئے 

دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے

 دل کی خاطر ہی زمانے کی بلا ہو جیسے

زندگی اپنے گناہوں کی سزا ہو جیسے

دل کی وادی میں تمناؤں کی رنگا رنگی

کوئی میلہ کسی بستی میں لگا ہو جیسے

ہاں پکارا ہے غم زیست نے یوں بھی ہم کو

پیار میں ڈوبی ہوئی تیری صدا ہو جیسے

یہ صحرا کی صر صر صبا تو نہیں ہے

 یہ صحرا کی صر صر صبا تو نہیں ہے

گُھٹن ہے محبت ہوا تو نہیں ہے

میاں تخت والے سے کیوں ڈر رہے ہو

فقط آدمی ہے خُدا تو نہیں ہے

چراغ محبت مِرے دل میں جاناں

ابھی جل رہا ہے بُجھا تو نہیں ہے

کب تلک چلتا رہے گا سلسلہ کشمیر کا

 کب تلک چلتا رہے گا سلسلہ کشمیر کا

اب تو کرنا ہی پڑے گا فیصلہ کشمیر کا

خونِ ناحق بہہ رہا ہے خطۂ کشمیر میں

خُون سے بدلے گا اک دن زاویہ کشمیر کا

جنگ جاری ہی رہے گی اب یہ تھمنے کو نہیں

جب تلک ہوتا نہیں ہے تصفیہ کشمیر کا

گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ

 گزر رہی ہے جدائی جو تجھ پہ شاق تو دیکھ

کبھی کبھی تُو ورائے حد فراق تو دیکھ

مِری طلب نہ سہی، میرا اشتیاق تو دیکھ

عبارتوں سے پرے آ، ذرا سیاق تو دیکھ

جدا ہیں جسم ہمارے، جُدا ہیں رنگ و روش

تُو ان کو چھوڑ کے رُوحوں کا التصاق تو دیکھ

Friday, 4 April 2025

الٰہی اپنے کرم سے عنایتیں کر دے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


الٰہی اپنے کرم سے عنایتیں کر دے

مِرے نصیبِ سخن کی ذہانتیں کر دے

میں لفظ و معنی کے ابہام سے نکل جاؤں

سخن شناس فضا کی سماعتیں کر دے

انا کی سرکشی، بس میں مِرے نہیں آتی

مِری جبیں کے مقدر عبادتیں کر دے

رہزن ہوا جو راہ نما ہاتھ کٹ گئے

رہزن ہوا جو راہنما ہاتھ کٹ گئے

بیری یہ راستہ جو ہوا ہاتھ کٹ گئے

غارت گرانِ امن و سکوں کو ملی پناہ

انصاف کی اٹھی جو صدا ہاتھ کٹ گئے

تبدیلئ نظام کی خاطر ہوئے نثار

ہاں، انقلاب آ تو گیا، ہاتھ کٹ گئے

خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو

 خار کو پھول کہو دشت کو گلزار کہو

اور اس جبر کو آزادیٔ افکار کہو

جن کے ہاتھوں میں علم اور نہ کمر میں شمشیر

وہ بھی کہتے ہیں ہمیں قافلہ سالار کہو

میں تو اک شوخ کے دامن سے کروں گا تعبیر

تم اسے شوق سے بت خانے کی دیوار کہو

مجبور کبھی کوئی قیادت نہیں ہوتی

 مجبور کبھی کوئی قیادت نہیں ہوتی

ہوتی ہے تو پھر اس سے حکومت نہیں ہوتی

اک سجدۂ اخلاص کی فرصت نہیں ہوتی

اللہ کے بندوں سے عبادت نہیں ہوتی

اعمال پہ جو اپنے ندامت نہیں ہوتی

اس بات کا قائل ہے ہمیشہ سے زمانہ

قد بڑھانے کے لیے بونوں کی بستی میں چلو

 قد بڑھانے کے لیے بونوں کی بستی میں چلو

یہ نہیں ممکن تو پھر بچوں کی بستی میں چلو

صبر کی چادر کو اوڑھے خوابگاہوں میں رہو

سچ کی دنیا چھوڑ کر وعدوں کی بستی میں چلو

جب بھی تنہائی کے ہنگاموں سے دم گھٹنے لگے

بھیڑ میں گم ہو کے انجانوں کی بستی میں چلو

Thursday, 3 April 2025

فکر فردا سے غافل کسے ہوش ہے

 فِکرِ فردا سے غافِل کسے ہوش ہے

ساری اُمّت فلسطیں پہ خاموش ہے

زُہد و تقویٰ عبادت میں مَدہوش ہے

ساری اُمّت فلسطیں پہ خاموش ہے

دَرد اِنسان سے عاری بنی مُعتکِف

حُکمِ باری، نبٌی سے ہوئی مُنحرِف

Wednesday, 2 April 2025

غمزدوں کے غم مٹانے کے لیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


غمزدوں کے غم مٹانے کے لیے

مصطفیٰﷺ آئے زمانے کے لیے

آئیے چرچا نبیﷺ کا کیجیے

دولت کونین پانے کے لیے

آپؐ کی آمد ہی کافی ہے شہا

قبر کو روشن بنانے کے لیے

اچھا ہے ہم سے حال ہمارا نہ پوچھیے

 اچھا ہے ہم سے حال ہمارا نہ پوچھیے

کیا کیا ستم کیے ہیں گورا نہ پوچھیے

اس اشکِ غم نے دل میں لگا دی ہے کیسی آگ

مژگاں پہ ہے جو مثلِ ستارہ نہ پوچھیے

غم سہتے سہتے قوتِ گُفتار بھی گئی

کیا حال ہو گیا ہے ہمارا نہ پوچھیے

Tuesday, 1 April 2025

سخت وحشت میں اگر میں نے پکارا ہے مجھے

 سخت وحشت میں اگر میں نے پکارا ہے مجھے

اس کا مطلب ہے ابھی میرا سہارا ہے مجھے 

اس نے وحشت میں جب پکارا مجھے

خود کو دینا پڑا سہارہ مجھے

یہ زمیں گول ہے سو ممکن ہے

مل بھی سکتا وہ دوبارہ مجھے

جب پڑا الٹا پڑا پانسہ مری تدبیر کا

 جب پڑا الٹا پڑا پانسہ مری تدبیر کا

مِٹ نہیں سکتا کبھی لکھا کسی تقدیر کا

ہے خدا کے فضل پر موقوف پر موقوف ملنا دہر میں

منزلت،. عزت،. وجاہت،. مرتبہ توقیر کا

ہو سکے جتنا مِرے قاتل! چلا، خنجر چلا

چلتے چلتے آپ بھر جائے گا منہ شمشیر کا

وفا کے پیکروں کا جھمگٹا تھا

 وفا کے پیکروں کا جھمگٹا تھا

مگر پھر بھی جگر زخمی ہوا تھا

سرِ نوکِ سِناں اک سر سجا تھا

یہ منظر دیکھ کر دل کانپتا تھا

ہزیمت یوں اٹھانا پڑ رہی ہے

عدو کو شہر سارا جانتا تھا

کھنڈرات میں بھٹکتی صدا ہوں ترے بغیر

 کھنڈرات میں بھٹکتی صدا ہُوں تِرے بغیر

کیسے تجھے بتاؤں میں کیا ہوں ترے بغیر

کیسے ادا کروں تِری یادوں کا شکریہ

جِن کے سہارے زندہ رہا ہوں ترے بغیر

مدت سے ہجرِ یار میں جو خود ہے جل بجھا

میں راہ میں پڑا وہ دِیا 🪔 ہوں ترے بغیر