عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شبیہ ابھری نظر میں ان کے جمال کی ہے
سو آج رونق ہی اور بزمِ خیال کی ہے
غموں کی شدت نے جب طبیعت نڈھال کی ہے
درودﷺ پڑھ کر شکستہ حالت بحال کی ہے
چھپے ہیں ابرِ فلک میں تارے، حیا کے مارے
کہ جوت پھیلی تِرےﷺ غبارِ نعال کی ہے
بکھیرتی ہے چمن میں خوشبو، ہوائے گیسو
شکن جبینِ گلاب پر انفعال کی ہے
پھر ان کی یادوں سے اپنا سینہ، بنا مدینہ
جو قلبِ فرقت زدہ میں حسرت وصال کی ہے
ہو ان کی تیغِ نظر سے گھائل، جو صاحبِ دل
اسے ضرورت ہی کیا کسی اندمال کی ہے
ہے سورج ان کے عروج کا ہی، جسے ذرا بھی
غروب کا خوف ہے نہ پرواہ زوال کی ہے
سلامِ ابرو میں عاجزانہ، مؤدبانہ
خمیدہ پیشانیِ عقیدت ہلال کی ہے
جو بے طلب ہی پیالہ بھر دے، نہال کر دے
کب ایسے منعم کے آگے حاجت سوال کی ہے
خوشا کہ رضوی ہے محوِ راحت، طفیلِ مدحت
ملالِ فردا نہ فکر، ماضی و حال کی ہے
نورالہدیٰ رضوی
No comments:
Post a Comment