اشکوں سے جو نہائیں لہو سے وضو کریں
قربان گاہِ فرض کی وہ گفتگو کریں
صحن چمن میں ڈھونڈ چکے حُسنِ ارتقاء
صحرا میں اب تجسسِ جوشِ نمو کریں
اس شہر بے اماں میں جو صد چاک ہو گیا
اس دامنِ حیات کو کیسے رفو کویں
جب حُسن کی اساس دل بے یقیں پہ ہے
پھر کس لیے ہم اپنے جگر کو لہو کریں
پیمانۂ خلوص نہیں جس کا دل صبا
اس شاہدِ جمال کی کیا آرزو کریں
صبا نقوی
No comments:
Post a Comment