پل خوشی کے تو کبھی آنکھ میں پانی دے گا
وقت ہر روز نئی ایک کہانی دے گا
دل مِرے چھیڑ نہ تو پھر وہ پرانے قصے
ذکر ماضی مجھے بس اشک فشانی دے گا
پیڑ کیکر کے بھی آئیں گے کہیں راہوں میں
ہر جگہ تو وہ نہیں رات کی رانی دے گا
زندگی ایک جگہ پر ہی رکی ہے کب سے
جانے اب کب وہ اسے آ کے روانی دے گا
بس اسی آس پہ اٹکی ہے مِری جان اب تک
کوئی تو رت وہ کبھی مجھ کو سہانی دے گا
لوٹ آئے گا وہ موسم ہے بھروسہ یہ مجھے
پھر مِرے باغ کو وہ رنگ فشانی دے گا
دل سے کہنے کی تو کوشش تو ذرا کر مدھومن
تیرے الفاظ کو پھر خود وہ معانی دے گا
مدھو مدھومن
No comments:
Post a Comment