Sunday, 20 April 2025

یوں وفا آزمائی جاتی ہے

 یوں وفا آزمائی جاتی ہے

دل کی رگ رگ دکھائی جاتی ہے

اپنی صورت کے آئنے میں مجھے

میری صورت دکھائی جاتی ہے

ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے

 نئی دنیا بنائی جاتی ہے

نہ بنے بات کچھ تو ہنس دینا

بات یوں بھی بنائی جاتی ہے

جلنے والا جلے دھواں بھی نہ ہو

آگ یوں بھی لگائی جاتی ہے

جانے والے تجھے خبر بھی ہے

اک قیامت سی آئی جاتی ہے

چشم امید تجھ کو اس کی شکل

دور سے پھر دکھائی جاتی ہے

دل کی چھوٹی سی اک کہانی تھی

ختم پر وہ بھی آئی جاتی ہے

وہ جو چمکا تھا اک ستارہ سا

اک گھٹا اس پہ چھائی جاتی ہے

دل پہ ابھری تھی وہ جو اک تصویر

کتنی جلدی مٹائی جاتی ہے

لو لگائی تھی شمع محفل سے

وہ بھی اب جھلملائی جاتی ہے

دوسروں سے رضا کسی کی یاد

کس طرح سے بھلائی جاتی ہے


امیر رضا مظہری

No comments:

Post a Comment