عدل سے منہ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے
سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے
تشنگی کی آنکھ میں بے سمت تیور دیکھ کر
کتنے دریا دل سمندر بھی ندی ہونے لگے
حسرتیں پلنے لگی ہیں پھر نبوت کے لیے
کچھ دنوں میں کیا خبر پیغمبری ہونے لگے
انتہا کو جب بھی پہنچے قربتوں کا اشتیاق
کیا پتا جبریلؑ کی بھی ہمسری ہونے لگے
قلب تک پہنچی نہیں جن کے شرابِ معرفت
ایسے فرضی لوگ دعوے سے ولی ہونے لگے
عشق کو اب لے چلیں آؤ اک ایسے موڑ پر
پیار میں جو کچھ بھی ہو وہ بندگی ہونے لگے
مل گئی ہیں وقت کو جانے کہاں کی وسعتیں
ان دنوں لگتا ہے لمحے بھی صدی ہونے لگے
منتظر قائمی
No comments:
Post a Comment