Monday, 14 April 2025

وہی زمانہ وہی ماہ و سال اوڑھے ہیں

 وہی زمانہ وہی ماہ و سال اوڑھے ہیں

بہت دنوں سے تمہارا خیال اوڑھے ہیں

شعاع مہر نے مجھ سے کہا بہ وقت شام

عروج والے یہاں سب زوال اوڑھے ہیں

ادب سے بیٹھیے آ کر کے ہم فقیروں میں

یہاں کے ٹاٹ نشیں سب کمال اوڑھے ہیں

سجائے بیٹھے ہیں وہ تہمتیں زبانوں پر

اور ایک ہم ہیں کہ اب تک مثال اوڑھے ہیں

خدا بچائے انہیں جنوری کی ٹھنڈک سے

جو شیت لہری غریبوں کے لال اوڑھے ہیں

انہیں میں قوم کا قائد تو کہہ نہیں سکتا

وہ بھیڑیے ہیں جو بھیڑوں کی کھال اوڑھے ہیں

ہمارے نام نہ ماضی نہ کوئی مستقبل

ہم اپنی حالت خستہ پہ حال اوڑھے ہیں

پھٹی قمیض دکھائی نہ دے کہیں قیصر

اسی لیے تو یہ رنگین شال اوڑھے ہیں


کلیم قیصر بلرامپوری

No comments:

Post a Comment