Tuesday, 22 April 2025

جب ہماری زندگی کا ختم افسانہ ہوا

 جب ہماری زندگی کا ختم افسانہ ہوا

اس گھڑی صد حیف ان کا خیر سے آنا ہوا

آپ تو ہنستے رہے ہم رو کے رسوا ہو گئے

شمع تو چلتی رہی پامال پروانہ ہوا

میری بربادی کے چرچے سن کے کس کس ناز سے

پوچھتے ہیں مسکرا کر کون دیوانہ ہوا

دہر میں اب مسکرانے کی ہمیں فرصت نہیں

دل ہجوم غم بنا غم آہ افسانہ ہوا

تُو نہ ہوتا تو زمین و آسماں کچھ بھی نہ تھا

تیرے قدموں کی بدولت میرا کاشانہ ہوا

اے کرم فرما تجھے ہو علم اس کا یا نہ ہو

کون تجھ میں کھو کے اور پھر خود سے بیگانہ ہوا

ہم ہی اک تنہا نہیں تسنیم مستانے ہوئے

ان کی نظریں کیا اٹھیں ہر رند مستانہ ہوا


جمیلہ خاتون تسنیم

No comments:

Post a Comment