وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں
دوسروں کے بھی والی رہے ہیں
ان کو خوشیاں میسّر نہ آئیں
درد و غم سے جو خالی رہے ہیں
دل کے پیڑوں کو ہم سینچ کر بھی
بے ثمر ڈالی ڈالی رہے ہیں
لوگ خوشحال رہ کر جہاں میں
وجہِ صد پائمالی رہے ہیں
مر کے بھی آج تک ہیں وہ زندہ
جیتے جی جو مثالی رہے ہیں
اندھی تقلید کے کل بھی قائل
میر و غالب نہ حالی رہے ہیں
میرے ہوتے ہوئے بھی وہ اسماء
کس قدر لا اُبالی رہے ہیں
اسماء ریاض
No comments:
Post a Comment