Tuesday, 8 April 2025

وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں

 وہ جو خود سے سوالی رہے ہیں

دوسروں کے بھی والی رہے ہیں

ان کو خوشیاں میسّر نہ آئیں

درد و غم سے جو خالی رہے ہیں

دل کے پیڑوں کو ہم سینچ کر بھی

بے ثمر ڈالی ڈالی رہے ہیں

لوگ خوشحال رہ کر جہاں میں

وجہِ صد پائمالی رہے ہیں

مر کے بھی آج تک ہیں وہ زندہ

جیتے جی جو مثالی رہے ہیں

اندھی تقلید کے کل بھی قائل

میر و غالب نہ حالی رہے ہیں

میرے ہوتے ہوئے بھی وہ اسماء

کس قدر لا اُبالی رہے ہیں


اسماء ریاض

No comments:

Post a Comment