Thursday, 17 April 2025

وہ اجنبی تھا مگر تھا وہ آشنا کی طرح

 وہ اجنبی تھا مگر تھا وہ آشنا کی طرح

مِرے وہ دل میں رہے گا مِری دعا کی طرح

وہ نا خدا تو نہیں تھا مگر سفینے کو

بچا بچا کے وہ لایا تھا ناخدا کی طرح

زباں سے اس کی جو نکلا وہ بن گیا مرہم

کلام اس کا حقیقت میں تھا دوا کی طرح

وہ چل دیا تھا مجھے چھوڑ کر کہاں جانے

جُھلستی ریت پہ اپنے ہی نقشِ پا کی طرح

میں رہ گیا تھا پکڑتا اسے دُھندلکوں میں

نکل گیا وہ بکھری ہوئی صدا کی طرح

میں گِھر گیا تھا اکیلا اُداس جنگل میں

مجھے وہ گھیرے ہوئے تھا کُھلی فضا کی طرح

رہوں گا چاروں طرف اس کے عمر بھر انجم

کبھی میں صبح کی صورت کبھی صبا کی طرح


انجم نیازی

No comments:

Post a Comment