حالات کا غبار مجھے یاد رہ گیا
ایک بے وفا کا پیار مجھے یاد رہ گیا
ہر نقش دلبری مِرا دھندلا کے رہ گیا
بس تیرا انتظار مجھے یاد رہ گیا
غیرو کی پالکی تھی سجی تیرے واسطے
تو ہو گیا سوار مجھے یاد رہ گیا
میں چھینتا تجھے یہ میری تربیت نہ تھی
اسلاف کا وقار مجھے یاد رہ گیا
بارش کے پانیوں میں وه کاغز کشتیاں
وه عہد یادگار مجھے یاد رہ گیا
سرور ہمارے چاہنے والوں میں کل تلک
اس کا بھی تھا شمار مجھے یاد رہ گیا
سرور خان سرور
No comments:
Post a Comment