Sunday, 13 April 2025

اک گھڑی جذبۂ نفرت کے سوا چاہتی ہے

 اک گھڑی جذبۂ نفرت کے سوا چاہتی ہے

زندگی تجھ سے محبت کی دعا چاہتی ہے

کیا کروں دوست تو اتنے بھی نہیں ہیں میرے

روز یہ روح کوئی زخم نیا چاہتی ہے

کیا عجب طور سے کرتی ہے شکست اپنی قبول

اب یہ دنیا کوئی ہنگامہ بپا چاہتی ہے

جس محبت کے لبوں سے کبھی جھڑتے تھے گلاب

اب وہی لہجۂ آشفتہ نوا چاہتی ہے

جان کو زخم تمنا سے افاقہ نہ ہوا

پھر نئے عشق میں پیمان وفا چاہتی ہے

شہرتیں ڈھل گئیں اک عمر کی مانند سو اب

موج رسوائی مرے گھر کا پتا چاہتی ہے

میرے ہونٹوں کی تمنا بھی عجب ہے آفاق

اس کے رخسار پہ اک پھول کھلا چاہتی ہے


مقصود آفاق

No comments:

Post a Comment