تیرا ہی ذکر تیرا ہی چرچا ہوا کرے
ہوتا ہے حشر برپا تو برپا ہوا کرے
ہاں ناز اور نیاز اسے بھی پسند ہیں
کہہ دیجیے جبیں سے ادب سے جھکا کرے
موسیٰ نہیں جو تاب تجلی کی لا سکوں
پردہ اٹھے تو یوں نہ کرم کا اٹھا کرے
میں نے تو تیرے عشق کو دل میں بسا لیا
ہوتا ہے اب جو حشر تو برپا ہوا کرے
ہم آرزو کریں بھی تو کس واسطے کریں
ہم کو قبول وہ جو ہمارا خدا کرے
دنیا کو ہم سمجھتے ہیں بستی دیوانوں کی
کہتی ہے ہم کو دنیا دیوانہ کہا کرے
میں اور مِرا وجود نہ باقی رہے ذرا
سینے میں تیرا عشق وہ محشر بپا کرے
مجھ کو کسی کے لطف و کرم سے نہیں ہے ربط
خوشبو مِرے بدن میں تِری ہی بسا کرے
اشرف باقری
No comments:
Post a Comment