Wednesday, 16 April 2025

سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے

 سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے

بڑی طویل کہانی تھی مختصر کی ہے

تو مجھ کو خاک سمجھتا ہے خاک سمجھا کر

مگر یہ دیکھ کہ یہ خاک کس کے در کی ہے

وہ جس کی چھاؤں میں آنے سے جسم جل جائے

تِری مثال تو اے دوست! اس شجر کی ہے

تمہاری یاد کا مرہم لگائے پھرتے ہیں

یہ چوٹ تم نے جو دی ہے وہ عمر بھر کی ہے

نہ صرف پاؤں ہوئے ذہن و دل بھی شل جس میں

تھکن تو آج بھی قیصر! اسی سفر کی ہے


کلیم قیصر بلرامپوری

No comments:

Post a Comment