جھکا کے سر نہ یوں دامن بچانا چاہیے تھا
انا پر آ گئی تھی سر کٹانا چاہیے تھا
ہوا ہموار دریا تھا شناور کا مقدر
ہوا وہ پار جس کو ڈوب جانا چاہیے تھا
نصیحت کا تِری یہ زاویہ کچھ اور ہوتا
میاں ناصح تجھے بھی دل لگانا چاہیے تھا
مشقت سے بدلنی تھی ہتھیلی کہ لکیریں
مقدر ہاتھ میں تھا آزمانا چاہیے تھا
تیرے سر پر جو پگڑی ہے مِرے اجداد کی ہے
مِری تعظیم میں یہ سر جھکانا چاہیے تھا
در جاناں در جاناں نظر آتا تھا ہر سُو
جبیں بیتاب تھی اس کو ٹھکانا چاہیے تھا
میں خود کو یاد تھا میری محبت میں کمی تھی
تِری قربت میں خود کو بھول جانا چاہیے تھا
ہمیشہ ہی رہی ان بن کسی دانش سے اس کی
مِرے جیسا اسے پاگل دیوانہ چاہیے تھا
تماشہ تھی جو دانش زندگی تو دیکھ لیتا
جو نغمہ تھی تو اس کو گنگنانا چاہیے تھا
فسانہ بن گئی تھی زندگانی گر جو دانش
اسے عزت سے سننا تھا سنانا چاہیے تھا
حنیف دانش اندوری
No comments:
Post a Comment