برقِ ستم سے ہیں گُل و گُلزار، اشکبار
خاکِ غَزہ ہے زخمی و لاچار اشکبار
اس درد سے تڑپتا ہے سارا جہانِ حق
ہے رنج و غم سے ہر دلِ خوددار اشکبار
لپٹی ہے خاک و خوں میں فلسطیں کی آبرو
ہم، تک رہے ہیں بے بس و ناچار، اشکبار
اپنا ہی گھر اُجڑتے ہوئے دیکھتے رہے
صد آہ ، کچھ نہ کر سکے مِعمار، اشکبار
منظر وہ ہم نے دیکھے ہیں پی کر لہو کے گُھونٹ
دشتِ بلا ہے، قوم ہے بے یار، اشکبار
عیّاش حُکمرانِ عرب، سب خموش ہیں
صد حیف، شانِ قوم ہے مِسمار، اشکبار
شہہ دیتی ہے یہود کو شاہوں کی خامشی
ہیں اِس دغا سے دین کے غمخوار، اشکبار
لُٹتے ہی جا رہے ہیں مسلماں کے قافلے
پھربھی نہیں ہیں قوم کے سردار، اشکبار
ہے پنجۂ یہود میں جان و تنِ سعود
اقصیٰ کے اور حرم کے ہیں مینار، اشکبار
اہلِ شعور دیکھیں یہ، اور فیصلہ کریں
غدّار ہنس رہے ہیں، وفادار اشکبار
جس پر ہیں انبیاء و صحابہ کے نقش پا
ہے وہ زمیں شِکستہ وخوں بار، اشکبار
پامال ہو رہی ہے بہارِ تبرکات
اسلامی عظمتوں کے ہیں آثار اشکبار
جِس کے بہادروں پہ شجاعت بھی ہے فدا
ہے اب وہ آشیانۂ اَحرار اشکبار
پائی ہے خود یہود نے جس سے کرم کی بھیک
اُس کو ہی آج کر دیا، نادار اشکبار
مہماں ہی میزباں کے ہیں قاتل بنے ہوئے
ایسی دغا پہ ہیں در و دیوار اشکبار
تازہ مسل دئیے گئے گُلہائے زندگی
ہیں ڈالیاں اُداس تو اَشجار، اشکبار
اُمید کی نظر ہے تِری سمت یا رسولؐ
طوفاں ہے سخت، اور ہے پتوار اشکبار
اُمت کی خستہ حالی پہ چشمِ کرم حضورؐ
ہے آپؐ سے مدد کی طلبگار، اشکبار
تیرے سوا ہمارا سہارا کوئی نہیں
ہے چشمِ منتظر اے مددگار اشکبار
اُس سر زمیں پہ حشر سے پہلے ہی حشر ہے
سب اہل حق ہیں در غم و آزار، اشکبار
تصویرکِھنچ نہ پائے گی اُس درد و کرب کی
ہیں فرطِ غم سے خامہ و افکار، اشکبار
دوری مٹا کے، ہم سبھی ہو جائیں متحد
ہوتے رہیں گے ورنہ یوں ہی خوار، اشکبار
تحریرمیں چُھپے ہیں جفا کے ہزار درد
اِس داستانِ غم سے ہیں اشعار، اشکبار
کمزوری کے نہیں ہیں، یہ غیرت کے اشک ہیں
دشمن کو اے فریدی! تو للکار، اشکبار
فریدی مصباحی
No comments:
Post a Comment