لمحۂ فکریہ
گھٹن عجب ہے دلوں میں اپنے
کہ نقش سارے ہی مٹ گئے ہیں
چاہتوں کے، صحبتوں کے
تمام نغمے بکھر گئے ہیں
خلوص پیکر جو لوگ سارے تھے
ڈھے گئے ہیں
ہجومِ انساں میں کھو گئے ہیں
چبھن ہے آنکھوں میں آج کیسی
کہ سارے منظر بدل گئے ہیں
روشنی کے سبھی حوالے
ہوا کی زد پہ کیوں آ گئے ہیں
عجب اگن ہے یہ جسم و جاں میں
کہ روحِ بے کل قرار مانگے
لوزماتِ حیاتِ ابدی
حساب مانگے
کسک امید صبح کی ڈھونڈے
بس اک تعلق، بس اک رشتہ
ہے جس میں راہِ نجات اپنی
بُجھے گی اس سے پیاس اپنی
حنا رئیس
No comments:
Post a Comment